خوش بختی پہ نازاں ہے یہ سرکار مدینہ
ہاتھ آیا ہے دل کو تیری الفت کا نگینہ
لے جائے جو قسمت مجھے اک بار مدینہ
پھر لوٹ کے گھر آؤں گا واپس میں نہ کبھی
جب پیشِ مواجہ میں گنہگار کھڑا تھا
پیشانی سے بہتا تھا ندامت کا پسینہ
آباد ہے نظاروں کا اک شہر نظر میں
موجود ہے دل میں تیری یادوں کا خزینہ
طوفان میں بھی نامِ محمد کے سبب سے
پہنچا ہے کنارے پہ مرادوں کا سفینہ
ہوتی ہے رقم سرور کونین کی جب نعت
مظہرؔ دلِ ویراں پہ اترتی ہے سکینہ