خیر اب تو ہے ہمارا رابطہ ٹوٹا ہوا

تھا بھی جب تو یہ دلِ بے زار تھا ٹوٹا ہوا

جانے کس منزل کی جانب جا رہا ہوں آج کل

چل رہا ہوں مضمحل ، افتادہ پا ، ٹوٹا ہوا

موڑ آ سکتا ہے پھر اس کے بھی خیالوں میں وہی

جڑ بھی سکتا ہے ہمارا سلسلہ ٹوٹا ہوا

ایک بت کے وار سے میں تو مکمل ہو گیا

میرے اندر جی اٹھا میں بے صدا ٹوٹا ہوا

چند لمحوں کے لیے بیمار کو نیند آئی ہے

اور سرہانے رو رہا ہے رتجگا توٹا ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]