دشت جنوں کی خاک کہاں تک اڑاؤں میں
جی چاہتا ہے اپنی طرف لوٹ جاؤں میں
ہر اک سے پوچھتا ہوں غمِ ہجر کا علاج
ہر کوئی کہہ رہا ہے تجھے بھول جاؤں میں
میں خوب جانتا ہوں نئے چارہ گر کی چال
وہ مجھ سے کہہ رہا ہے تجھے بھول جاؤں میں
دیکھوں تو ہمسفر ہے ترا کون میرے بعد
اپنے ان حوصلوں کو زرا آزماؤں میں
اس نے کیا تھا عہد مرا ساتھ دینے کا
خود کو یقین خواب کا کیسے دلاؤں میں
سنتے ہیں اس نگر میں بھی اب کے خزاں ہے تیز
شاید کہ اس بہار اسے یاد آؤں میں