دامان تار تار ، گریباں پھٹے ہوئے

لوٹے ہیں گردِ راہ ِ وفا سے اٹے ہوئے

تم نے چھوا تو ٹوٹ کے ریزے بکھر گئے

ہم اپنی خواہشوں میں کھڑے تھے بٹے ہوئے

ہم صرف اک تخیلِ آوارہ گرد ہیں

مدت ہوئی ہے ذہنِ رساء سے کٹے ہوئے

دل سے ترے خیال کی تصویر بھی گئی

دیوار کا نصیب فقط چوکھٹے ہوئے

ناصر یہ عشق ہی رہے شاید کہ آخری

بڑھتا ہوا جنون ہے اور دل گھٹے ہوئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]