درمیاں پردۂ حائل کو اٹھا سکتے ہیں

ایک دنیا کو وہ دیوانہ بنا سکتے ہیں

نالۂ درد کہیں کام اگر آ جائے

چشمِ رحمت وہ مری سمت اٹھا سکتے ہیں

ایسے کم ہیں کہ جو میدانِ عمل میں اتریں

بیٹھ کر بات تو سب لوگ بنا سکتے ہیں

دعوتِ عام ہے میخانۂ توحید ہے یہ

کلمہ ساقی کا پڑھیں جو بھی وہ آ سکتے ہیں

در بدر ٹھوکریں کھانے کا جنھیں ہو سودا

آستاں چھوڑ کے تیرا وہی جا سکتے ہیں

اتنی قوت ہے بہم مجھ کو ترے غم کے طفیل

آنکھ غم ہائے زمانہ سے ملا سکتے ہیں

تابِ افسانۂ غم دل کو نہیں ہے اب تو

ہم نہ سن سکتے ہیں اس کو نہ سنا سکتے ہیں

ناز برداری دل بھی نہیں ہوتی ہم سے

ہم زمانہ کے کہاں ناز اٹھا سکتے ہیں

اے نظرؔ روضۂ اقدس پہ کبھی جا تو سہی

تیری بگڑی وہی سرکار بنا سکتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]