اردوئے معلیٰ

Search

درمیاں پردۂ حائل کو اٹھا سکتے ہیں

ایک دنیا کو وہ دیوانہ بنا سکتے ہیں

 

نالۂ درد کہیں کام اگر آ جائے

چشمِ رحمت وہ مری سمت اٹھا سکتے ہیں

 

ایسے کم ہیں کہ جو میدانِ عمل میں اتریں

بیٹھ کر بات تو سب لوگ بنا سکتے ہیں

 

دعوتِ عام ہے میخانۂ توحید ہے یہ

کلمہ ساقی کا پڑھیں جو بھی وہ آ سکتے ہیں

 

در بدر ٹھوکریں کھانے کا جنھیں ہو سودا

آستاں چھوڑ کے تیرا وہی جا سکتے ہیں

 

اتنی قوت ہے بہم مجھ کو ترے غم کے طفیل

آنکھ غم ہائے زمانہ سے ملا سکتے ہیں

 

تابِ افسانۂ غم دل کو نہیں ہے اب تو

ہم نہ سن سکتے ہیں اس کو نہ سنا سکتے ہیں

 

ناز برداری دل بھی نہیں ہوتی ہم سے

ہم زمانہ کے کہاں ناز اٹھا سکتے ہیں

 

اے نظرؔ روضۂ اقدس پہ کبھی جا تو سہی

تیری بگڑی وہی سرکار بنا سکتے ہیں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ