درودوں کے سحابِ خیر سے تطہیرِ خُو کر کے

نمازِ نعت پڑھتا ہُوں سخن کو با وضو کر کے

اُتر آتے ہیں حرفوں میں گُلابوں کے حسیں منظر

مہکتی ہے شبِ مدحت تصور مُشکبو کر کے

بسا اوقات، فُرقت شوق کی انگلی پکڑتی ہے

مدینہ دیکھ لیتا ہُوں سفر کی آرزو کر کے

ابھی تھا کیفِ حرفِ دل دُعا تک بھی نہیں آیا

وہ دستِ ناز بڑھ آیا عطا کو چار سُو کر کے

وفورِ شوقِ بے خود دید کے رستے میں حائل ہے

مواجہ پر کھڑا ہُوں چشمِ حیرت حیلہ جُو کر کے

بُلاوا آیا ہے شہرِ کرم سے بے نواؤں کو

سو مَیں بھی جا رہا ہُوں عجز کو زیبِ گُلو کر کے

تمثل خود نثارِ نقشِ پائے ناز ہوتا ہے

خجل ہیں چاند سورج طلعتوں کو روبرو کر کے

لبالب مِل رہے تھے جام مدحت کی عطاؤں سے

لیا ہے مَیں نے جُرعہ کاسۂ دل کو سبو کر کے

اُسی موسم کی اِک شامِ مدینہ یاد کرتا ہُوں

بہ اشکِ چشمِ فرقت شوق کو دل میں نمو کر کے

خُدا کا ذکر ہو جاتا ہے تیری نعت کہنے سے

ثنا تیری کیا کرتا ہُوں مَیں تسبیحِ ھُو کر کے

جوارِ گنبدِ خضریٰ میں رونق خوب ہے مقصودؔ

کبوتر جھُومتے رہتے ہیں اُن کی گفتگو کر کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]