در وصل، جمالش گُلِ خندانِ من است

در ہجر، خیالش دل و ایمانِ من است

دل با من و من با دل ازو در جنگیم

ہر یک گوئیم کہ آں صنم آنِ من است

وصل میں، اُس کا جمال میرا ہنستا

مسکراتا کھلکھلاتا پُھول ہے۔ ہجر میں

اُس کا خیال، میرا دل، میرا دین ایمان ہے

دل میرے ساتھ اور میں دل کے ساتھ اُس

کی وجہ سے لڑتے ہیں، کیونکہ دونوں ہی

یہی کہتے ہیں کہ وہ صنم میرا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

عزم

بکھرے ہوئے اوراقِ خزانی چُن کر لے جاؤں گا ایک ایک نشانی چُن کر چھوڑوں گا نہیں کچھ بھی تری آںکھوں میں کھو جاؤں گا ہر یاد پُرانی چُن کر

یاد

گو رزق کے چکر نے بہت جور کیا ہم پھرتے رہے ، صبر بہر طور کیا شانوں پہ تری یاد کی چادر لے کر یوں گُھومے کہ ہر شہر کو لاہور کیا