دشت دل میں خواہشوں کی آفرینی ، مر کہیں

تو مرے قابل نہیں شہرت کمینی ،مر کہیں

تھوڑے دن تو دے مجھے مہلت سکون قلب کی

میری کائر گریہ زاری ہجر بینی ، مر کہیں

اے مری ہجرت کشائی چھوڑ دے پاوں مرے

خود فریبی ، لامکانی ، بے زمینی ، مر کہیں

بحث کرتی دل میں اگتی اک مسلسل ، بے بسی

مجھ سے لڑتی ، بین کرتی بے یقینی ، مر کہیں

اے دلِ کم ظرف ، اتنی بدگمانی پال کر

تو نے میری آخری امید چھینی ، مر کہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]