دل سے یوں دھڑکنیں الجھتی ہیں
جس طرح سوکنیں الجھتی ہیں
میں ہوں آسان سا ہدف ان کا
روز کچھ الجھنیں الجھتی ہیں
نامرادی کے جن ستاتے ہیں
ہجر کی ڈائنیں الجھتی ہیں
جب انہیں چپ سے باندھ دیتے ہیں
خود سے پھر دولہنیں الجھتی ہیں
زندگی یوں الجھ گئی جیسے
ریشمی کترنیں الجھتی ہیں
عشق زنجیر جس میں کومل اب
دل نہیں گردنیں الجھتی ہیں