دفن جو صدیوں تلے ہے وہ خزانہ دے دے

ایک لمحے کو مجھے اپنا زمانہ دے دے

چھاپ دے اپنے خدوخال مری آنکھوں پر

پھر رہائش کے لئے آئینہ خانہ دے دے

اور کچھ تجھ سے نہیں مانگتا میرے آقا

نا رسائی کو زیارت کا بہانہ دے دے

موت جب آئے مجھے کاش ترے شہر میں آئے

خاکِ بطحا سے بھی کہہ دے کہ ٹھکانہ دے دے

زندگی جنگ کا میدان نظر آتی ہے

میری ہر سانس کو آہنگِ ترانہ دے دے

اپنے ہاتھوں ہی پریشان ہے اُمت تیری

اس کے الجھے ہوئے حالات کو شانہ دے دے

اپنے ماضی سے مظفر کو ندامت تو نہ ہو

اس کے اِمروز کو فردائے یگانہ دے دے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]