دل بہت دیوانگی کی منزلیں طے کر چکا

اب کہاں جاتی ہے وحشی تک مری آواز بھی

چاند بھی گھٹنے لگا ہے سرمئی آفاق پر

اور گھٹتی جا رہی ہے قوتِ پرواز بھی

توڑنا دم کا بہر صورت یقینی تھا مگر

دیر تک دل کو سنبھالے رہ گئے دم ساز بھی

مرتعش سیماب ٹھہریں کلبلاتی حیرتیں

آخرش عریاں ہوا ہے وہ سراپا ناز بھی

منتشر ہونا عناصر کا مرا انجام ہے

منتشر مادے کا ہونا تھا مرا آغاز بھی

جبہ و دستار تو وحشت کا ایندھن تھا مگر

آ گئی چنگاریوں کی زد میں اک پشواز بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]