دل بہت دیوانگی کی منزلیں طے کر چکا
اب کہاں جاتی ہے وحشی تک مری آواز بھی
چاند بھی گھٹنے لگا ہے سرمئی آفاق پر
اور گھٹتی جا رہی ہے قوتِ پرواز بھی
توڑنا دم کا بہر صورت یقینی تھا مگر
دیر تک دل کو سنبھالے رہ گئے دم ساز بھی
مرتعش سیماب ٹھہریں کلبلاتی حیرتیں
آخرش عریاں ہوا ہے وہ سراپا ناز بھی
منتشر ہونا عناصر کا مرا انجام ہے
منتشر مادے کا ہونا تھا مرا آغاز بھی
جبہ و دستار تو وحشت کا ایندھن تھا مگر
آ گئی چنگاریوں کی زد میں اک پشواز بھی