دل سے نِکلی ہُوئی ہر ایک صدا کیف میں ہے

نامِ آقا کے وسیلے سے دعا کیف میں ہے

درِ سرکار سے منہ مانگی مرادیں لے کر

نعمتیں ہاتھ میں ہیں اور گدا کیف میں ہے

ہاتھ پھیلائے ہُوئے شاہ و گدا ہیں حاضر

اُن کے دربار میں تو ابرِ سخا کیف میں ہے

خُوں کے پیاسوں کو مُعافی کا دیا پروانہ

فتحِ مکہ پہ عنایات و عطا کیف میں ہے

مرحبا آمدِ سرکار کی ساعت آئی

فرش سے عرش تلک ساری فضا کیف میں ہے

اُن کی دہلیز پہ دم توڑ دے جو بھی آکر

ہے مقدر کا دھنی اُس کی قضا کیف میں ہے

آج پھر یادِ مدینہ نے کیا ہے بے چین

دل میں اُمید کا پھر آج دِیا کیف میں ہے

وجد کرتے ہُوئے گُزریں گے غلامانِ نبی

ربِّ سَلِّم کی وہ پُر نور صدا کیف میں ہے

جب سے دیکھی ہے درِ شاہ کی مرزا نے بہار

بے خودی کا ہے سماں صبح و مسا کیف میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]