دل میں جو الفت محبوب احد رکھتے ہیں

اپنی بخشش کی وہی لوگ سند رکھتے ہیں

اپنے آقا کی مدد پر ہے بھروسہ ہم کو

کب کسی اور سے امید مدد رکھتے ہیں

یہ غلامان شہ دیں ہیں حقارت سے نہ دیکھ

تاجداروں سے بلند اپنے یہ قد رکھتے ہیں

میرے آقا کی عطاؤں کا نہیں کوئی جواب

کب روا اپنے سوالی پہ وہ رد رکھتے ہیں؟

عظمت سرور عالم پہ جو ہوتے ہیں نثار

جاوداں خود کو وہی تا بہ ابد رکھتے ہیں

جو سمجھتے نہیں آقائے جہاں کی عظمت

کیسے کہدوں کہ وہ کچھ عقل و خرد رکھتے ہیں

ذہن میں رکھتے ہیں کیسے وہ خیال جنت

دل میں جو سید کونین سے کد رکھتے ہیں

طاق انفاس پہ روشن ہیں درودوں کے چراغ

للہ الحمد کہ سامان لحد رکھتے ہیں

وہ کہاں لاتے ہیں خاطر میں متاع کونین

شاہ کونین سے جو حبِ اشد رکھتے ہیں

صرف اور صرف ٹھکانا ہے جہنم ان کا

آل سرکار سے جو بغض و حسد رکھتے ہیں

نورؔ رہتے ہیں جو ہر وقت ثنا میں مصروف

وہی عقبیٰ کے لیے زاد و رسد رکھتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]