دل میں رکھنا رب کی یادوں کے سوا کچھ بھی نہیں

یہ عمل ہو گا تو پھر رنج و بلا کچھ بھی نہیں

بولے ابراہیم یہ سارے بتوں کو توڑ کر

میرا رب سچّا ہے باقی دوسرا کچھ بھی نہیں

رب کے بندے خاص جو ہیں دہر اُن کے واسطے

ایک بے جاں جانور اس کے سِوا کچھ بھی نہیں

زندگی ہم نے گزاری دُنیاداری میں مگر

آخرت کے واسطے ہم نے کیا کچھ بھی نہیں

جس کو ایماں کی ملی ہے روشنی روشن ہے وہ

یہ جو دُنیا کی ضیا ہے یہ ضیا کچھ بھی نہیں

ربِّ عالم آرزو ہے خاتمہ بالخیر ہو

میرا تو اس کے سوا اب مدّعا کچھ بھی نہیں

ہے حرم کی سرزمیں رحمت بداماں دوستو!

اس کے آگے ساری دُنیا کی فضا کچھ بھی نہیں

روشنی مغرب کی لوگو ! تیرگی ہے تیرگی

جس میں عکسِ دیں نہ ہو وہ آئینہ کچھ بھی نہیں

راہِ حق سے جو ہٹا بندہ خسارے میں رہا

واسطے اس کے مگر روزِ جزا کچھ بھی نہیں

حکمِ مولا گر نہ ہو تو طاہرِؔ خستہ سنو !

ہر دَوا بے سود ہوگی اور دُعا کچھ بھی نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]