آج شاعر ، ادیب نثر نگار اور محقق مخدوم طالب المولیٰ کا یومِ پیدائش ہے ۔

——
سندھی زبان کے معروف شاعر، نثر نگار، محقق اور سروری جماعت کے روحانی پیشوا حضرت مخدوم طالب المولیٰ (مکمل نام: مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ) کا شمار بیسویں صدی میں سندھ کی ممتاز علمی ٬ ادبی ٬ سماجی ٬ سیاسی اور روحانی شخصیات میں ہوتا ہے۔ شاعری، نثر نگاری، تحقیق، ادبی، تعلیمی اور اشاعتی اداروں کا قیام اور سرپرستی، ملکی سطح پر اصولوں کی سیاست سمیت ان کی شخصیت کے کئی حوالے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ سندھ کی معروف درگاہ حضرت مخدوم سرور نوح کے سجادہ نشیں بھی تھے۔
برصغیر کی عظیم روحانی شخصیت حضرت مخدوم سرور نوح سندھی زبان کے اوائلی شعراء میں سے ایک تھے۔ ان کی ابیات کو سندھی ادب کی تاریخ میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے سندھ میں پہلی مرتبہ کلام پاک کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا اور اس خطے کے لوگوں کی روحانی تربیت اور اصلاح کے لیے تاریخی خدمات سرانجام دیں۔ بعد ازاں ان کے خاندان کے بزرگوں اور سجادہ نشینوں نے ان کی طرف سے روشن کی گئی روحانیت اور علم و ادب کی مشعل کو ہر دور میں روشن رکھا اسی وجہ سے یہ خاندان ہمیشہ سے سندھ کے لوگوں کی محبتوں اور عقیدتوں کا محور بنا رہا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : مخدوم محی الدین کا یومِ وفات
——
اس خاندان کے چشم و چراغ کی حیثیت سے مخدوم طالب المولیٰ کی علمی٬ ادبی و سماجی خدمات انہی کی خاندانی روایات کا تسلسل تھیں۔ مخدوم طالب المولیٰ کی پیدائش 4 اکتوبر 1919 میں ہوئی اور وہ 1944 میں اپنے والد حضرت مخدوم غلام محمد کے وصال کے بعد درگاہ حضرت مخدوم سرور نوح رحمت اللہ علیہ کے سترویں سجادہ نشیں بنے۔
انہوں نے نہایت کم عمری میں ہی شعر کہنا شروع کر دیا تھا اور 1946 میں ان کا پہلا شعری مجموعہ بہار طالب کے عنوان سے منظر عام پر آیا٬ جو کہ ان کی رباعیات پر مشتمل تھا۔ ویسے تو مخدوم صاحب غزل، رباعی، وائی، بیت اور دیگر اصناف کے بہترین شاعر تھے لیکن سندھی کلاسیکل شاعری کی مقبول صنف کافی پر ان کو بے مثال عبور حاصل تھا٬ انہوں نے کافی کی صنف پر تحقیقی کام بھی کیا یہ تحقیق ان کی ایک تصنیف ”کافی“ کی صورت میں 1958 میں شائع ہوئی۔ سندھی ادب کی تاریخ میں کافی کی صنف کے حوالے سے ان کی اس تصنیف کو سند کا درجہ حاصل ہے۔
علاوہ ازیں مخدوم صاحب کے کافی کلام پر مشتمل کئی مجموعے منظر عام پر آئے جن میں ”بے پیر اکھیوں“ ، ”چھپر میں چھڑیوں“ اور دیگر تصانیف شامل ہیں۔ دیگر خصوصیات کے ساتھ ساتھ ان کا کلام موسیقیت سے بھی لبریز ہے اسی وجہ سے ان کے کلام کو عابدہ پروین، رونا لیلیٰ، استاد منظور علی خان سمیت ملک کے معروف گلوکاروں نے خوب گایا ہے اور سننے والوں کی بھرپور پذیرائی ملی ہے۔
مخدوم صاحب غزل کے بھی بہترین شاعر تھے اسی لیے ان کی غزلوں پر مشتمل مجموعے ”دیوان طالب المولیٰ“ کو سندھی زبان میں اس صنف پر مشتمل بہترین تصانیف میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے بیت، قطعات، رباعیات اور متفرق کلام پر مشتمل تصانیف میں ”سدا وسیں سندھڑی“ ، ”آب حیات ’بہارستان،“ شام و صبح ”،“ شان سروری ”،“ سندھ جو ساون ”،“ کچکول ”،“ مثنوی عشق و عقل ”،“ مثنوی کا نگا کر گالھ ”،“ چھنڈڑیوں اور شان حسین ”شامل ہیں۔ ان کی تحقیقی اور نثری تصانیف میں اسلامی تصوف“ امام غزالی جا خط ”،“ یاد رفتگاں ”،“ مصری جوں تڑوں ”،“ منھنجو ننڈپن ”،“ لغات سندھی مخففات اور ”مضامین طالب المولیٰ“ شامل ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : گلِ باغِ نبی مخدوم صابر
——
اس کے علاوہ مخدوم صاحب پوری زندگی علمی، ادبی اور اشاعتی اداروں کے قیام اور سرپرستی میں مصروف رہے۔ اس حوالے سے انہوں نے 1950 میں ہالا میں الزمان پریس قائم کی اور ادارہ روح ادب کا قیام عمل میں لائے۔ اس دور میں نئے لکھنے والوں کی پذیرائی کے لئے فردوس، شاعر، طالب المولیٰ اور روح ادب جیسے ادبی جرائد کی سرپرستی کی۔ وہ 1955 میں سندھی ادبی بورڈ اور ریڈیو پاکستان کی مشاورتی کمیٹی کے ممبر اور 1956 میں جمیعت الشعراء سندھ کے صدر منتخب ہوئے۔ اس کے علاوہ وہ دو مرتبہ سندھی ادبی بورڈ کے چیئرمین بنے اور اس ادارے کی ترقی کے لیے مثالی خدمات سرانجام دیں۔ ان کی طرف سے قائم کی گئی تنظیم بزم طالب المولیٰ کا شمار آج بھی سندھ کی بڑی ادبی تنظیموں میں کیا جاتا ہے۔
مخدوم صاحب نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کرنے سے کیا جبکہ قیام پاکستان کے بعد وہ کئی مرتبہ سندھ اسمبلی اور قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور ملکی سیاست میں نہایت اہم کردار نبھاتے رہے۔
مخدوم طالب المولیٰ نے 11 جنوری 1993 کو وفات پائی۔ مخدوم صاحب کی علمی ادبی اور سماجی خدمات کے پیش نظر انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے 1965 میں تمغہ پاکستان اور 1992 میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ مخدوم صاحب کی ساری زندگی خدمت خلق کے لیے وقف رہی۔ سندھی زبان میں ان کا ایک مشہور شعر ان کی زندگی کے بارے میں ان کے نقطۂ نظر کی بھرپور طریقے سے عکاسی کرتا ہے۔ ان کے اس شعر کا مفہوم کچھ یوں ہے۔
——
اگر خدمت کرنے کی نہیں طاقت طالب المولیٰ
تو پھر مخدومی دنیا میں بڑا منصب تو نہیں
——
آپ کی تصانیف میں امام غزالی جا خطوط، اسلامی تصوف، خود شناسی، شیطان، بہار طالب، رباعیات طالب، یاد رفتگان، مثنوی عقل و عشق، کچکول، کافی، سندھ جو شکار، بیاض طالب المولیٰ، مصری جوں تڑوں، مضامین طالب المولیٰ، سماع العاشقین فی سرور الطالبین اور دیگر کئی کتاب شامل ہیں۔