دن گذریں مدینے میں راتیں ہوں مدینے کی

"جینا ہو اگر ایسے کیا بات ہو جینے کی”

نظریں ہیں مدینہ پر نظروں میں مدینہ ہے

سانسوں میں مدینہ ہے سانسیں ہیں مدینے کی

کیا خوب ہے یہ ایقاں؛ میخوارِ مئی عرفاں

جاتے ہیں مدینے کو خواہش ہو جو پینے کی

آقا پہ بھروسہ ہے آقا کا سہارا ہے

کیا ذکر ہے طوفاں کا کیا فکر سفینے کی

ہوتی ہے بسر جیسے دنیا میں قرینے سے

عقبیٰ مری ہو جائے سرکار قرینے کی

مر کر بھی رہوں اپنے سرکار کے قدموں میں

مٹی مجھے مل جائے ائے کاش مدینے کی

کیا عرض کروں عارفؔ ہیں صاف عیاں اُن پر

احساس مرے دل کے باتیں مرے سینے کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]