دورانِ خطابت منبر پر اوروں پہ تو برہم ہوتے ہیں

منکر کی مجالس میں لیکن خود شیخِ مکرم ہوتے ہیں

جنت ہے تمہارا مل جانا، دوزخ ہے بچھڑ جانا تم سے

کچھ اس کے سوا معلوم نہیں کیا خلد و جہنم ہوتے ہیں

وہ آخرِ شب کا سناٹا، وہ کیفِ تقرب کا عالم

مائل بہ کرم وہ ہوتا ہے، مصروفِ دعا ہم ہوتے ہیں

دیکھیں نہ تو ان کی بے نوری، سمجھیں نہ تو ان کی ناسمجھی

قدرت کے اشارے تادیبی، بندوں کو تو پیہم ہوتے ہیں

رندوں کی نگاہیں کیوں نہ اٹھیں، ساقی کی نگاہوں کی جانب

ساقی کی نگاہوں سے ظاہر اسرارِ دو عالم ہوتے ہیں

احساسِ محبت، رنج و الم، ہم رشتہ و پیوستہ ہیں نظرؔ

یہ بطنِ ازل سے پیدا ہی کہتے ہیں کہ تواَم ہوتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]