دو دل جلے باہم جلے تو روشنی ہوئی

کچھ وہ جلا، کچھ ہم جلے تو روشنی ہوئی

اتنا بڑھا کچھ حبسِ جاں کہ بجھ گئے خیال

کچھ دَر کھلے کچھ غم جلے تو روشنی ہوئی

کل رات گھر کی تیرگی دل میں اُتر گئی

دو دیدۂ پُر نم جلے تو روشنی ہوئی

اُلجھے ہوئے احساس نے دھندلا دیا شعور

جذبوں کے پیچ و خم جلے تو روشنی ہوئی

رستے سبھی تھے بے نشاں اپنی تلاش کے

انجم نما خود ہم جلے تو روشنی ہو ئی

اک عمر سے بے نور تھے زخموں کے سب چراغ

کچھ روز بے مرہم جلے تو روشنی ہوئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]