دھوپ میں جلتا رہا ہے برسوں

دشت میں خود کو جلایا ہوا ہے

عشق محنت سے کمایا ہوا ہے

یہ ترے ہجر کا آزار ،اعزاز

اپنے سینے سے لگایا ہوا ہے

دھوپ میں جلتا رہا ہے برسوں

تب گھنا پیڑ کا سایہ ہوا ہے

اب کوئی رنگ جمے گا کیسے

عشق نے رنگ جمایا ہوا ہے

سامنے اب نہ کوئی آئے مرے

وہ مرے سامنے آیا ہوا ہے

میں نے اک پھول اسے دینا ہے

میں نے اک بوجھ اٹھایا ہوا ہے

اب تو میری بھی جگہ بنتی نہیں

مجھ میں اتنا وہ سمایا ہوا ہے

جب سے اپنایا مجھے اس نے قیصرؔ

شہر کا شہر پرایا ہوا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]