دشت میں خود کو جلایا ہوا ہے
عشق محنت سے کمایا ہوا ہے
یہ ترے ہجر کا آزار ،اعزاز
اپنے سینے سے لگایا ہوا ہے
دھوپ میں جلتا رہا ہے برسوں
تب گھنا پیڑ کا سایہ ہوا ہے
اب کوئی رنگ جمے گا کیسے
عشق نے رنگ جمایا ہوا ہے
سامنے اب نہ کوئی آئے مرے
وہ مرے سامنے آیا ہوا ہے
میں نے اک پھول اسے دینا ہے
میں نے اک بوجھ اٹھایا ہوا ہے
اب تو میری بھی جگہ بنتی نہیں
مجھ میں اتنا وہ سمایا ہوا ہے
جب سے اپنایا مجھے اس نے قیصرؔ
شہر کا شہر پرایا ہوا ہے