اردوئے معلیٰ

Search

دشت میں خود کو جلایا ہوا ہے

عشق محنت سے کمایا ہوا ہے

 

یہ ترے ہجر کا آزار ،اعزاز

اپنے سینے سے لگایا ہوا ہے

 

دھوپ میں جلتا رہا ہے برسوں

تب گھنا پیڑ کا سایہ ہوا ہے

 

اب کوئی رنگ جمے گا کیسے

عشق نے رنگ جمایا ہوا ہے

 

سامنے اب نہ کوئی آئے مرے

وہ مرے سامنے آیا ہوا ہے

 

میں نے اک پھول اسے دینا ہے

میں نے اک بوجھ اٹھایا ہوا ہے

 

اب تو میری بھی جگہ بنتی نہیں

مجھ میں اتنا وہ سمایا ہوا ہے

 

جب سے اپنایا مجھے اس نے قیصرؔ

شہر کا شہر پرایا ہوا ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ