ذکرِ سرکار سے کچھ ایسی ضیا پائی ہے

چاندنی جیسے مرے دل میں اُتر آئی ہے

میرے ادراک میں مہکی ہیں ثنا کی کلیاں

گلشنِ طیبہ سے اپنی بھی شناسائی ہے

مدحتِ شاہ میں مشغول رہوں شام و سحر

دل مرا ایسی سعادت کا تمنائی ہے

یہ ہنر ہو کہ میں اشعار کی لڑیاں باندھوں

منتظر کب سے مرے خامے کی رُشنائی ہے

اب تو لگتا ہے کہ انوار کی بارش ہو گی

اُجلی اُجلی ہے فضا نوری گھٹا چھائی ہے

تجھ کو اے ناز بلاتے ہیں رسولِ عربی

آج طیبہ سے یہ پیغام صبا لائی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]