ذکرِ سرکار سے کچھ ایسی ضیا پائی ہے
چاندنی جیسے مرے دل میں اُتر آئی ہے
میرے ادراک میں مہکی ہیں ثنا کی کلیاں
گلشنِ طیبہ سے اپنی بھی شناسائی ہے
مدحتِ شاہ میں مشغول رہوں شام و سحر
دل مرا ایسی سعادت کا تمنائی ہے
یہ ہنر ہو کہ میں اشعار کی لڑیاں باندھوں
منتظر کب سے مرے خامے کی رُشنائی ہے
اب تو لگتا ہے کہ انوار کی بارش ہو گی
اُجلی اُجلی ہے فضا نوری گھٹا چھائی ہے
تجھ کو اے ناز بلاتے ہیں رسولِ عربی
آج طیبہ سے یہ پیغام صبا لائی ہے