راہوں میں تری طُور کے آثار ملے ہیں

ذروں کے جگر مطلع انوار ملے ہیں

تاروں میں ترے حسنِ تبسم کی ضیاء‌ ہے

پھولوں کی مہک میں ترے آثار ملے ہیں

معراج کی شب سرحدِ امکاں سے بھی آگے

نقشِ قدمِ احمد مختار ملے ہیں

جو ذات الہی کی تجلی سے نہ جھپکے

ہاں آپ کو وہ دیدہ بیدار ملے ہیں

جو دل کہ تیرے پیار کی لذت سے ہیں محروم

وہ بھی تری رحمت کے خریدار ملے ہیں

جو لوگ ہوئے تیری غلامی سے مشرف

وہ عظمت انسان کا معیار ملے ہیں

سَردار بھی دیکھیں ہیں ، سرِ دار بھی دیکھے

ہر حال میں ساتھی ترے سرشار ملے ہیں

ہے ناز ہمیں اپنے مقدر پہ ، نہ کیوں ہو

سرکار ملے ہیں ، ہمیں سرکار ملے ہیں

جو نعت پیمبر کی حلاوت کے امیں ہیں

اے سرو مجھے وہ لبِ گفتار ملے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]