راہِ خیال سے تو بہت قافلے گئے

لیکن سرائے خواب میں کوئی نہیں رہا

میرے سوا بھی عشق بہت سوں کو راس تھا

یوں مستقل عذاب میں کوئی نہیں رہا

کام آ گئے تمام ہی گوشہ نشینِ دل

ہستی کے انقلاب میں کوئی نہیں رہا

اٹھی تھی ایک پل ترے مجذوب کی نظر

سنتے ہیں پھر نقاب میں کوئی نہیں رہا

چارہ گراں ہزار تھے ، لاکھوں نیاز کیش

پر عین اضطراب میں کوئی نہیں رہا

چہرے پگھل پگھل کے ، ٹپکنے پہ آ گئے

سو دیدہِ سحاب میں کوئی نہیں رہا

روشن مکانِ دل کے دریچے کہاں سے ہوں

اس خانماں خراب میں کوئی نہیں رہا

کردار داستان میں تنہا نہیں تھا میں

لیکن سفر کے باب میں کوئی نہیں رہا

ناصر لگام چھوٹ گئی دستِ شوق سے

پائے جنوں رکاب میں کوئی نہیں رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]