ردائے ظلمتِ شب پل میں پھاڑ کر تو نے

نکالی گردشِ ایام کی سحر تو نے

میرا عقیدہ ہے، ایسا ہے قادرِ مطلق

جو سنگ ریزے تھے ان کو کیا گہر تو نے

جو مضطرب رکھے اس کو جگر کے ٹکڑے پر

دیا ہے ماں کو وہی عشقِ معتبر تو نے

رسولِ صادق و مصدوق و امّی کے ذریعے

بدل دی خیرِ مکمل سے فکرِ شر تو نے

اٹھائی جس پہ، اسے معرفت ملی تیری

عطا کی بندۂ مومن کو وہ نظر تو نے

مرے کریم! ترا شکر اس عنایت پر

دیا ہے مجھ کر ضرورت کا مال و زر تو نے

ہے اعتراف کہ ساحل ہے مطمئن اس میں

دیا ہے اس کو وراثت میں ایسا گھر تو نے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]