رموز مصلحت کو ذہن پر طاری نہیں کرتا

ضمیر آدمیت سے میں غداری نہیں کرتا

قلم شاخ صداقت ہے زباں برگ امانت ہے

جو دل میں ہے وہ کہتا ہوں اداکاری نہیں کرتا

میں آخر آدمی ہوں کوئی لغزش ہو ہی جاتی ہے

مگر اک وصف ہے مجھ میں دل آزاری نہیں کرتا

میں دامان نظر میں کس لیے سارا چمن بھر لوں

مرا ذوق تماشا بار برداری نہیں کرتا

مکافات عمل خود راستہ تجویز کرتی ہے

خدا قوموں پہ اپنا فیصلہ جاری نہیں کرتا

مرے بچے تجھے اتنا توکل راس آ جائے

کہ سر پر امتحاں ہے اور تیاری نہیں کرتا

میں آسیؔ حسن کی آئینہ داری خوب کرتا ہوں

مگر میں حسن کی آئینہ برداری نہیں کرتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]