اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر اور ماہرِ تعلیم شہریار کا یومِ وفات ہے۔

اخلاق محمد خان "شہریار” (پیدائش 16 جون 1936ء – وفات 13 فروری 2012ء)
——
اخلاق محمد خان "شہریار” (16 جون 1936ء – 13 فروری 2012ء) ایک بھارتی ماہرتعلیم اور اردو شاعری کی مشہور شخصیت کے طور پر مقبول ہوئے تھے۔ بالی وڈ کے ایک نغمہ نگار کے طور پر وہ گمان (1978ء) اور امراؤ جان (1981ء میں بنی فلم) کے نغموں کے لیے یاد کیے جاتے ہیں۔ ان فلموں کی ہدایت مظفر علی نے کی تھی۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر کے طور پر وظیفہ یاب ہوئے اور اس کے بعد مشاعروں کی ایک پسندیدہ شخصیت بن گئے۔ وہ مغنی تبسم کی معیت میں شعروحکمت (ششماہی) کی ادارت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ علی گڑھ میگزین ،خیروخبر اور فکرونظر کے مدیر تھے۔ وہ ہماری زبان کے شریک مدیر بھی رہے تھے۔
شہریار کو ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے خواب اور در بند ہے (1987ء) کے لیے اردو میں ایوارڈ ملا تھا۔ 2008ء میں انہیں گیان پیٹھ ایوارڈ دیا گیا جو بھارت میں اعلٰی ترین ادبی انعام ہے شہریار اسے حاصل کرنے والے چوتھے اردو شاعر تھے۔
شہریار اونالا، اتر پردیش میں ایک مسلم راجپوت خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ابو محمد خان ایک پولیس افسر کے طور پر متعین تھے، حالانکہ یہ خاندان بلندشہر ضلع کے چودیرا گاؤں سے تعلق رکھتا تھا۔ بچپن کے زمانے میں شہریار ایک ایتھلیٹ بننا چاہتے تھے، تاہم ان کے والد پولیس کی ملازمت میں شامل کروانا چاہتے تھے۔ تبھی وہ شاعر خلیل الرحمن اعظمی کی رہنمائی میں گھر سے بھاگ گئے۔ فکر معاش کی تکمیل کے لیے وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو فکشن پڑھانے لگے جہاں انہوں نے بعد میں پی ایچ ڈی مکمل کیا۔ اس طرح تعملیمی مناہج کے حساب سے انہوں ںے ابتدائی تعلیم بلند شہر میں حاصل کی جبکہ آگے تعلیم علی گڑھ میں مکمل کی۔
وہ علیگڑھ میں قیصر ولا کمپاؤنڈ سے ملحق فیصل ولا کے ایک حصے میں شہریار اور دوسرے میں مرزا خلیل احمد بیگ رہتے تھے۔
معاصرین کی رائے میں شہریار بلند قد، بھراہؤا بدن گیہواں رنگ، گول چہرہ، چوڑی پیشانی اور کھڑی ناک کی حامل شخصیت تھے۔
شہریار کو کھیلوں میں ہاکی سے جنون کی حد تک دلچسپی تھی۔
شہریار نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز انجمن ترقی اردو کے ادبی معاون کے حیثیت سے کی۔ اس کے بعد وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو کے لیکچرار کے طور پر شامل ہوئے۔ 1986ء میں وہ پروفیسر بنے۔ 1996ء میں وہ شعبہ اردو کے صدرنشین کے طور پر مستعفی ہوئے۔
شہریار کا پہلا مجموعہ کلام اسم اعظم 1965ء میں چھپا۔ ان کا دوسرا مجموعہ ساتواں در 1969ء میں منظرعام پر آیا۔ اس کے بعد تیسرا مجموعہ ہجر کے موسم 1978ء میں جاری ہوا۔ ان کا شاہ کار خواب کے در بند ہیں 1987ء میں شائع ہوا جسے ساہتیہ اکیڈمی کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان کے علاوہ انہوں پانچ اور مجموعات کلام شائع کیے۔[10]2008ء میں وہ چوتھے اردو ادیب بنے جنہیں گیان پیٹھ ایوارڈ حاصل ہوا۔ اس سے یہ اعزاز فراق گورکھپوری، علی سردار جعفری اور قرۃالعین حیدر کو حاصل ہوا تھا۔
ایک انٹرویو میں شہریار نے کہا تھا کہ 1965ء میں جب وہ کافی کلام جمع کر چکے تھے، انہوں نے شمس الرحمٰن فاروقی کو لکھا کہ وہ یا تو اپنے پیسوں سے اس مجموعے کو چھاپ سکتے ہیں یا شادی کرسکتے ہیں۔ اس پر فاروقی کا جواب یہ تھا کہ وہ اسے مجموعے کو چھپوائیں گے، جبکہ شہریار شادی کر سکتے ہیں۔
شہریار کے کلام خواب کا در بند ہے کا انگریزی ترجمہ The Gateway to Dream is Closed کے عنوان سے 1992ء میں شائع ہوا۔ ساہتیہ اکیڈمی نے اسی طرح Selected Poetry of Shahryar شائع کیا۔ دیوناگری ان کا پورا کلام منتقل ہوا۔ علاقائی تراجم کے ساتھ ساتھ بیشتر نظموں کے ترجمے فرانسیسی، روسی اور جرمن زبانوں میں کیے گئے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : کرتا ہے گلِ خلد کی شبنم سے لب کو تر
——
شہریار نے چند فلموں کے لیے علی گڑھ ہی میں رہ کرنغمے لکھے تھے۔ مظفر علی اور شہریار زمانہ طالب علمی سے دوست تھے۔ شہریار اپنی غزلوں کو انہیں سنایا کرتے۔ جب علی نے گمن فلم سے ہدایتی سفر کا آغاز کیا تو انہوں نے ان کی دو غزلوں سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے اور عجیب سانحہ مجھ پر گذر گیا یاروں کو اس فلم میں نغموں کے طور پر استعمال کیا۔ ان کی تمام غزلیں جو فلم امراؤجان ادا میں شامل ہیں بالی وڈ کے بہترین نغمے مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے یش چوپڑا کے فاصلے کے لیے 1985ء میں لکھا تھا۔ اس کے بعد یش نے تین اور فلموں میں نغموں کی گزارش کی مگر شہریار یہ کہتے ہوئے منع کر دیے کہ وہ "نغموں کی دکان” نہیں بننا چاہتے۔ حالانکہ اس کے بعد وہ مظفر علی کی انجمن (1986ء) کے لیے لکھے۔ ان کا آخری فلمی نغمہ میرا نایر کی فلم دی نیم سیک (2006ء) تھی۔ ان کے ادھورے کاموں میں علی کی فلم زونی اور دامن تھے۔
اعزازات
شہریار کو ساہتیہ اکیڈمی، بہادرشاہ ظفر ایوارڈ، غالب انسٹی ٹیوٹ ایوارڈ، اترپردیش اردو اکیڈمی ایوارڈ، میرا اکیڈمی ایوارڈ، ساہتیہ منچ ایوارڈ جالندھر، ادبی سنگھم ایوارڈ، شرف الدین یحیٰی منیری ایوارڈ، فراق سمّان اور اقبال سمّان سے نوازا گیا تھا۔
اس کے علاوہ انہیں گیان پیٹھ اعزاز بھی حاصل ہوا۔
شہریار پر چار تحقیقی مقالے لکھے گئے۔
حیدرآباد یونیورسٹی کی جانب سے شہریار کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی گئی تھی۔
سنیل پور یونیورسٹی، اڑیسہ کی جانب سے گنگادھر یادگار اعزاز برائے شاعری (Gangadhar Memorial Poetry Award) عطا کیا گیا تھا۔
وہ 13 فروری 2012 ء کو وفات پا گئے ۔
——
شہریار کی شاعری: ایک مطالعہ از فیض الرحمٰن
——
آزادی کے دس پندرہ سال بعد ہماری اردو شاعری نے نیا رنگ و آہنگ اختیار کیا۔اسے بالعموم ترقی پسند تحریک کے رد عمل کے طور پر جانا جاتا ہے۔اور اس کے نتیجے میں ایک باقاعدہ تحریک کا آغاز ہوتا ہے جسے ہم جدیدیت کی تحریک کے نام سے جانتے ہیں ۔اس نئے رجحان کے زیر اثر کی جانے والی شاعری کو جدیدیا نئی شاعری کہا جا سکتاہے۔شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں :
’’خاص میکانکی اور زمانی نقطۂ نظر سے ’نئی شاعری‘سے میں وہ شاعری مراد لیتا ہوں جو ۱۹۵۵؁ء کے بعد تخلیق ہوئی ہے۔۱۹۵۵؁ء کے پہلے کے ادب کو میں نیا نہیں سمجھتا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ۱۹۵۵؁ء کے بعد جو لکھا گیا وہ سب نئی شاعری کے زمرے میں آتا ہے اور یہ بھی نہیں کہ ۱۹۵۵؁ء کے پہلے کے ادب میں ’جدیدیت ‘کے عناصر نہیں ملتے۔میری اس تعین زمانی کی حیثیت صرف ایک Refrenceکی ہے۔‘‘ ۱ ؏
بہر حال ۱۹۶۰؁ء کے بعد کی شاعری نئی شاعری یا جدید شاعری کہلاتی ہے۔اور اس دور کی شاعری کہ نئی نظم ،نئی غزل یا جدید غزل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ایسی شاعری میں شاعر کی انفرادیت ،اس کا مزاج نیز اس کے تجربات و محسوسات کو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔نیا شاعر کسی ازم کا پابند نہیں ہوتا ۔وہ اپنے عقل وشعور اور اپنے داخلی احساس کو ہی اپنا آئیڈیل قرار دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نئے شعراء کو اکثر ترسیل کی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔لیکن جن شعراء نے محنت، لگن اور خلوص سے کام لیا ان کے فن میں پختگی ہے۔اس فن میں زندہ رہنے کی صلاحیت موجود ہے۔انھیں مخلص فنکاروں میں شہریار کا نام بھی بہت نمایاں ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ خلیل الرحمن اعظمی،ناصر کاظمی وغیرہ کے بعد جو نام سب سے اہم ہے وہ کنور محمد اخلاق خاں متخلص بہ شہریار ؔکا ہے۔شہریار جدید یت سے وابستہ رہ کر کبھی بھی اس کی فکر کو اپنے فن پر غالب نہیں ہونے دیے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری بہت مضبوط اور پائیدار ہے۔وہ یکسر کلاسیکی روایت سے منہ نہیں موڑتے بلکہ ماضی کی صحت مند روایتوں سے ہمیشہ اپنا رشتہ استوار رکھتے ہیں ۔اس لیے ان کی شاعری کو قدیم و جدید کا سنگم بھی کہا گیا ہے۔انھوں نے کلاسیکی روایات کو موجودہ عہد کے تقاضوں کی روشنی میں نئی جہت دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
تمام جدید شعراء کی طرح شہریارؔنے بھی اظہارِ ذات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کے سماجی مسائل،تنہائی،بے چارگی،شکستہ خوردگی، ناکامی، ناامیدی، زندگی کی تلخییاں ، بے حسی،عدم تحفظ وغیرہ کوبھی موضوع بنایا ہے۔مگر فن پر مضبوط گرفت ہونے کی وجہ سے وہ ترسیل کی ناکامی سے بچ گئے ہیں ۔ان کے کلام میں بڑی تہہ داری پائی جاتی ہے۔جہاں ان کا لہجہ طنزیہ ہو گیا ہے وہاں تلخی بھی پیدا ہو گئی ہے۔لیکن وہ اپنے دھیمے لہجے اور گن گناہٹ سے اس تلخی کو قابل قبول بنا دیتے ہیں ۔چند اشعار ملاحظہ ہوں ؏
——
عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
میں اپنے سایے سے کل رات ڈر گیا یارو
وہ کون تھا ،وہ کہاں کا تھا،کیا ہوا تھا اسے
سنا ہے آج کوئی شخص مر گیا یارو
——
شہریار ؔ کے یہاں ایسے اشعار کی بھی کمی نہیں ہے جن میں زندگی ہے ،حرارت ہے ،جوش ہے حوصلہ ہے۔ان کی شاعری میں رنگا رنگی پائی جاتی ہے۔مندرجہ ذیل اشعارسے ہم اس بات کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں ؏
——
امید سے کم چشم خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے
——
لاکھ خورشید سر بام اگر ہیں تو رہیں
ہم کوئی موم نہیں ہیں کہ پگھل جائیں گے
——
راتیں جیسی بھی ہوں ڈھل جاتی ہیں
زخم کیسے بھی ہوں بھر جاتے ہیں
——
جان بھی میری چلی جائے تو کوئی بات نہیں
وار تیر ا نہ ایک بھی خالی جائے
——
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
——
ہر ایک ادا پسند ہے معشوق کی ہمیں
ظالم ہو ،بددماغ ہو،ہرجائی تو نہ ہو
——
شہریار کی شاعری میں کلاسیکی روایات کی پاسداری ملتی ہے۔وہ قدیم روایات کو یکسر نظر انداز نہیں کرتے بلکہ قدیم و جدید کے امتزاج سے ان کی غزلوں میں نئے طرز کا احساس ہوتا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے طرز احساس میں شدت پیدا ہوـتی جاتی ہے ؏
——
جدھر اندھیرا ہے ،تنہائی ہے، اداسی ہے
سفر کی ہم نے وہی سمت کیوں مقرر کی
——
دھوپ کی قہر کا ڈر ہے تو دیار ِشب سے
سر برہنہ کوئی پرچھائیں نکلتی کیوں ہے
——
گردش وقت کا کتنا بڑا احساں ہے کہ آج
یہ زمیں چاند سے بہتر نظر آتی ہے ہمیں
——
اے شہر ترا نام و نشاں تک نہیں ہوتا
جو حادثے ہونے تھے اگر ہو گئے ہوتے
——
تقسیم کا المیہ بہت بڑا المیہ ہے۔کون شخص تھا جو اس حادثے سے متاثر نہیں ہوا۔شہریار نے بھی اپنی شاعری میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔آزادی ،تقسیم،فسادات اور ہجرت کے وقت ہونے والے سانحات ،عظیم اقدار کی پامالی کا ذکر جب ان کی شاعری میں ہوتا ہے تو ان کے یہاں حزن و الم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ایسے مواقع پر انسانوں کے ذہن و دماغ پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔اس کو انھوں نے بڑی چابک دستی سے اپنے اشعار میں ڈھالا ہے ؏
——
ہر شخص مضمحل ہے بکھرنے کے خوف سے
آندھی کا قہر سر وصنوبر پہ دیکھ کر
——
ماحول میرے شہر کا ہاں پر سکوں نہ تھا
لیکن بٹا ہوا یہ قبیلوں میں نہ تھا
——
کیا عجب رسم ہے دستور بھی کیا خوب ہے یہ
آگ بھڑکائے کوئی ، کوئی بجھانے آئے
——
گزرے تھے حسین ابن علی رات ادھر سے
ہم میں سے مگر کوئی بھی نکلا نہیں گھر سے
——
وقت کی بات ہے یہ بھی کہ مکاں خوابوں کا
جس نے تعمیر کیا ہو وہی ڈھانے آئے
——
نئے عہد میں انسان جن مسائل سے دوچار ہے ان میں عدم تحفظ ،تنہائی ،احساس بے چارگی،خوف ،زندگی سے بے زاری وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جن پر تمام جدید شعراء نے اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔شہریار ؔنے بھی ان موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ لیکن ان کے یہاں سطحیت بالکل نہیں پائی جاتی بلکہ ان کے فکر وفن کی بلندی ہر جگہ نمایاں ہے۔وہ ثقیل الفاظ کے بجائے عام فہم الفاظ اور تراکیب ہی کے ذریعہ اپنے اشعار کو کمال ہنر مندی سے نئے معنی و مفہوم میں پیش کرتے ہیں ۔ان کے یہاں خود کلامی کا لہجہ بھی ااستعمال ہوتا ہے اور کبھی کبھی وہ سوال بھی قائم کرتے ہیں اور نہایت سادگی سے بہت کچھ کہہ جاتے ہیں ۔ان کا دھیما لہجہ بہت مشہور ہے مگر وہ دل کو چھو نے والا ہوتا ہے۔ان کے یہاں تشبیہ و استعارہ،علامات اور پیکر تراشی کا عمل بھی دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ان وسائل کے استعمال سے ان کے یہاں کسی طرح کی پیچیدگی پیدا نہیں ہوتی ۔یہ اشعار دیکھیے ؏
——
میں زندہ ہوں اس کا مجھ کو کچھ تو یقیں آئے
ہے آباد مکاں دل میں کوئی تو مکیں آئے
——
جہاں جائیے ریت کا سلسلہ
جدھر دیکھئے شہر اجڑے ہوئے
——
مری آنکھوں کو کب روشنی سے نسبت تھی
ازل سے میرے تعاقب میں ہے اندھیرا کیوں
——
میرے سورج آ!میرے جسم پہ اپناسایہ کر
بڑی تیز ہوا ہے ،سردی آج غضب کی ہے
——
جدید شاعری میں خواب کا ذکر کثرت سے ہوا ہے اور اسے بحیثیت پناہ گاہ اور سہارا کے استعمال کیا گیا ہے۔شہریار ؔکے یہاں خوابوں کو مرکزیت حاصل ہے۔ان کے یہاں آنکھ ،نیند،رات،اندھیرا،جگنو وغیرہ کا استعمال خواب کے استعارے کو اور بھی معنی خیز بنا دیتا ہے ؏
——
یہی ہے وقت کہ خوابوں کے بادباں کھولو
کہیں نہ پھر سے ندی آنسوؤں کی گھٹ جائے
——
سورج کا سفر ختم ہوا ،رات نہ آئی
حصے میں میرے خوابوں کی سوغات نہ آئی
——
زخموں کو رفو کر لیں دل شاد کریں پھر سے
خوابوں کی کوئی دنیا آباد کریں پھر سے
——
کون سا قہر یہ آنکھوں پہ ہو اہے نازل
ایک مدت سے کوئی خواب نہ دیکھا ہم نے
——
جاگتی آنکھوں سے بھی دنیا دیکھو
خوابوں کا کیا ہے وہ ہر شب آتے ہیں
——
اٹھو نیندوں سے آنکھوں کو جلائیں
چلو خوابوں کی پریوں کو پکاریں
——
ریت کے استعارے کا استعمال بھی ان کے یہاں خوب ہے۔اس کے ذریعہ وہ انکشاف ِذات بھی کرتے ہیں اور گرد و پیش کے حالات و واقعات پر تبصرہ بھی کرتے ہیں ۔پیش ہیں اس سے متعلق یہ اشعار ؏
——
ریت پھیلی اور پھیلی دور دور
آسماں سے کیا خبر لائی ہوا
——
ریت بے فیض تھی ،بے مہر مگر ریت نہ تھی
ریت کے غم میں بگولوں کو بھپرتادیکھو
——
منتشر کر چکی آندھی تو یہ معلوم ہوا
اک بگولے کی طرح ریت کے گھر میں ہم تھے
——
جذب کرے کیوں ریت ہمارے اشکوں کو
تیر ا دامن تر کرنے اب ہم آتے ہیں
——
رگوں میں ریت کی اک اور تہ جمی دیکھو
کہ پہلے جیسی نہیں خون میں روانی بھی
——
مٹھیاں ریت سے بھر لو کہ سمندر میں تمھیں
اک نہ اک روز جزیروں کی ضرورت ہوگی
——
مندرجہ بالا اشعار میں ریت کو استعارہ کے طور پر استعمال کر کے نئے زمانے کی کرب ناکی کو اجاگر کیا گیا ہے۔اس طرح کے اشعار ان کے تمام مجموعہ کلام میں ملتے ہیں ۔اس طرح شہریارؔ کی شاعری ہم عصروں میں بہت ممتاز نظر آتی ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ شاید یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی ازم کی زنجیروں میں قید ہو کر شاعری نہیں کر تے ۔بے شک انھوں نے جدیدیت کا اثر قبول کیا ہے اور جدیدیت کے زیر اثر نظمیں اور غزلیں بھی کہی ہیں ۔لیکن ان کی اس فکر پر فن غالب رہتا ہے۔وہ جدیدیت کی رو میں بہہ نہیں جاتے بلکہ فنی تقاضوں کو ہمیشہ عزیز رکھتے ہیں ۔اس لیے کہا جا تا ہے کہ ان کی گرفت فن پر بہت مضبوط ہے۔احمد محفوظ لکھتے ہیں :
’’جدید غزل کی نمائندہ آوازوں میں شہریار کی حیثیت آج کے تناضر میں مرکزی کہی جا سکتی ہے۔اس مرکزیت کی بنیاد محض اس بات پر نہیں ہے کہ ان کا تخلیقی سفر طویل عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی جاری ہے بلکہ اس بات پر بھی ہے کہ ان کے یہاں اظہار کی یکسانیت کے بجائے فکر و احساس کی سطح پر مسلسل آگے بڑھنے اور نئے نئے ابعاد تلاش کرنے کا رجحان اب بھی نمایاں ہے۔اس عمل میں جو بات سب سے زیادہ اپنی طرف متوجہ کرتی ہے وہ ان کے یہاں فنی تقاضوں کی بھر پور پابندی ہے۔یہی وہ منزل ہے جہاں بیش تر شعرا کو ناکامی کا منھ دیکھنا پڑتا ہے۔ترقی پسندوں ااور آج کے بہت سے شعرا کی ناکامی کا ایک سبب یہی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے فن کے تقاضوں کو قابل ِ لحاظ اہمیت نہیں دی۔‘‘ ۲؏
شہریار کی نظموں کا ذخیرہ کچھ کم نہیں ہے۔ انھیں نظم گوئی اور غزل گوئی دونوں پر یکساں عبور حاصل ہے۔انھوں نے خلیل الرحمن اعظمی سے کسب ِفیض کیا تھا۔ ان کی نظمیں فکر و فن کے لحاظ سے کافی بلند مقام پر ہیں ۔اان کی نظموں میں بھی روایت سے بغاوت کے باو جود کلاسیکیت یکسر نظر انداز نہیں ہوتی ۔اس لیے ان کی نظمیں نئی ہونے کے ساتھ فطری بھی ہیں ۔نئے زمانے کے مسائل ،عصری حسیت،شہری زندگی ،انسانی اقدار کی پامالی،ناکامیاں ،محرومیاں ،خوشی و غم جیسے موضوعات پر ان کی نظموں کا تانا بانا تیار ہوا ہے ؏
——
ابھی نہیں ابھی زنجیرِخواب برہم ہے
ابھی نہیں ابھی دامن کے چاک کا غم ہے
——
ابھی نہیں ابھی در باز ہے امیدوں کا
ابھی نہیں ابھی سینے کا داغ جلتا ہے
——
ابھی نہیں ابھی پلکوں پہ خوں مچلتا ہے
ابھی نہیں ابھی کم بخت دل دھڑکتا ہے
——
(موت)اسم اعظم
دن کے صحرا سے جب بنی جان پر
ایک مبہم سا آسرا پاکر
ہم چلے آئے اس طرف اوراب
رات کے اس اتھاہ دریا میں
خواب کی کشتیوں کو کھیتے ہیں !
——
(فریب درفریب)اسم اعظم
بس کی بے حس نشستوں پر بیٹھی
دن کے بازار سے خریدی ہوئی
آرزو ،غم، امید،محرومی
نیند کی گولیاں ، گلاب کے پھول
کیلے ،امرود،سنگترے،چاول
ایک اک شے کا کر رہی ہے حساب
عہد حاضر کی دل ربا مخلوق
(عہد حاضر کی دل مخلوق) ساتواں در
——
صنعتی ترقی کے دور کی تصویر بھی ملا حظہ کیجئے جہاں کرب ناکی، دنیا بیزاری ،اکتاہٹ کاکیسا سماں بندھا ہوا ہے ؏
——
دواؤں کی الماریوں سے سجی اک دوکان میں
مریضوں کے انبوہ میں مضمحل سا
اک اانسان کھڑا ہے
جو اک نیلی کبڑی سی شیشی کے سینے پہ لکھے ہوئے
ایک اک حرف کو غور سے پڑھ رہا ہے
مگر اس پہ تو’’زہر‘‘لکھا ہوا ہے
اس انسان کو کیا مرض ہے
یہ کیسی دوا ہے؟
(نیا امرت) اسم اعظم
——
آج کا انسان جن مسائل کے دوچار ہے۔ان میں تنہائی کا خوف ،عدم تحفظ ،بے چارگی ،زندگی سے مایوسی،غربت و افلاس ان تمام باتوں کی طرف شہریار کی نظموں میں واضح اشارے موجود ہیں ۔انھوں نے اپنی نظموں کے ذریعہ اانسانی زندگی کے مختلف پہلو ؤں کو بے نقاب کیا ہے ؏
——
ہاتھوں میں نہیں حرکت کوئی
محروم ہیں گویائی سے لب
آنکھوں کو دید کی تاب نہیں
انکار ہے دل کو دھرکنے سے
اور گوش ،سماعت سے خائف
چھو کر تو ذرا دیکھو اس کو
انسان ہے یا ہے بت کوئی
(انسان یا بت)ساتواں در
——
میں نہیں جاگتا تم جاگو
سیہ رات کی زلف ،اتنی الجھی ہے کہ سلجھا نہیں سکتا ہوئی
بارہا کر چکا کوشش میں تو
تم بھی اپنی سی کرو
اس تگ ودو کے لیے خواب مرے حاضر ہیں
نیند ان خوابوں کے پروازوں سے لوٹ جاتی ہے
سنو،جاگنے کے لیے ان کا ہونا
سہل کر دیگا بہت کچھ تم پر
آسماں ریگ میں کاغذ کی ناؤ
رک گئی ہے اسے حرکت میں لاؤ
اور کیا کرنا ہے تم جانتے ہو
میں نہیں جاگتا تم جاگو
سیہ رات کی زلف
اتنی الجھی ہے کہ سلجھا نہیں سکتا کوئی
( میں نہیں جاگتا۔۔۔)نیند کی کرچیں
ہنسنے کے جتنے مقام آئے ہنسا
بس مجھے رونے کے ساعت پہ خجل ہونا پڑا
جانے کیوں رونے کے ہر لمحے کو
ٹال دیتا ہوں کسی اگلی گھڑی پر
دل میں ،خوف و نفرت کو سجا لیتا ہوں
مجھ کو یہ دنیا بھلی لگتی ہے
بھیڑ میں اجنبی لگنے میں مزا آتا ہے
(زندہ رہنے کا احساس )نیند کی کرچیں
——
بنائے تھے ہوس گھیرے
د ریچوں میں سجے چہرے
گلی کی آخری حد تک
میں اپنی آنکھ میں نقشہ
کسی اجڑے ہوئے گھر کا
لیے واپس چلا آیا
یہ پچھتاوا اسی کا ہے
کہ کیوں خود کو بچا لایا
(کیوں خود کو بچا لایا)نیندکی کرچیں
——
معاصرعہد میں انسان کی نفسیاتی اور جذباتی پیچیدگی نے ان کے احساس میں شدت پیدا کر دی ہے۔جس سے ان کے اندر ایک طرح کا جنون طاری ہو گیا ہے اور شعور کی گہرایٔ وگیرائی میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔شہریار بھی جیسے جیسے اپنی داخلی و خارجی دنیا سے آگاہ ہوتے جاتے ہیں ان کی الجھنیں بڑھتی جاتی ہیں ۔انھیں نفسیاتی و جذباتی پیچیدگیوں کے پس منظر میں خلیل الرحمن اعظمی نے ان کی شخصیت اور شاعری کا تجزیہ کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے :
’’وہ اپنی اندرونی شخصیت کی تلاش میں ہے اوراس تلاش کے لیے اس نے شاعری کا سہارا لیا ہے۔ اس کی ساری نظمیں در اصل ااسی جستجو کی روداد ہیں ۔خواب اورحقیقت کا ٹکراؤ ،دن اور رات کی کش مکش ،بھری دنیا میں تنہائی کا احساس ،فریب اور خود فریبی، سراب، صحرا، ریت، تاریکی، دھندلکا،گمشدگی،بازیافت،کرب،موت اور زندگی دونوں کی خواہش اور دونوں سے فرار ۔یہ وہ داخلی مسائل ہیں جن سے اس کی شاعری کا خمیر تیار ہواہے۔اس کی نظموں میں کہیں مدھم اور کہیں واضح طور پر یہ آہیں سنائی دیتی ہیں ۔‘‘ ۳؏
شہریار کی نظموں میں علامت نگاری کی بے شمار مثالیں ہیں۔ان کی شاعری میں جدید علامتیں ،نئے نئے موضوعات اور انسانی جذبات واحساسات کو بڑی خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ان کے یہاں برجستگی اور بے شاختگی پائی جاتی ہے۔ان کی کوئی بھی نظم شعریت سے خالی نہیں ہوتی ؏
——
دن کا دروازہوابند شب ِتار آئی
راستے کروٹیں لینے لگے
گلیوں میں اداسی چھائی
سارے ہنگامے، وہ سب رونقیں (دن کی ہمراز)
——
گونگی جیلوں میں ہوئیں قید
چلو اب نکلیں
اپنی تنہائی کے اس خول سے باہر
دیکھیں
اپنا سایہ کہاں جاتا ہے شبِ تار میں آج
کون سی یادوں کو چمکاتا ہے
کس پل کو صدا دیتا ہے
آج کیا کھوتا ہے،کیا پاتا ہے
کس طرح بڑھتا ہے ،گھٹتا ہے،بکھرجاتا ہے
کیسے مر جاتا ہے؟
(سائے کی موت ) اسم اعظم
——
جدید شعرا کی بھیڑ میں شہریارؔنے جس طرح اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔انھوں نے غزلوں اور نظموں میں روایت کی پاسداری کے علاوہ خوشگوار اضافے بھی کیے ہیں اور اظہار کی نئی شمعیں بھی جلائی ہیں ۔ان کی شاعری میں جو انفرادیت ہے وہی ان کی شناخت ہے اور طرز اظہار بھی ہے۔اگر شہریار کی شاعری کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا جائے تو جدید شاعری کے خلاف جو تعصب دلوں میں پایا جاتا ہے وہ دور ہو سکتا ہے اور نئی نسل کے شعرا اپنے تخلیقی عمل کے دوران ان کی شاعری سے بھر پور استفادہ کر سکتے ہیں ۔
——
حواشی
——
۱۔صفحہ۱۲۶،لفظ و معنی،شمس الرحمن فاروقی،شب خون ،کتاب گھر،الہ آباد، ۱۹۶۸؁ء
۲۔صفحہ۔۲۹۵،شعرو حکمت دور سوم ۔کتاب پانچ(مرتبین:شہریار و مغنی تبسم)۔کپاڈیا لین،سوماجی گوڑہ،حیدرآباد، ۲۰۰۳؁ء
۳۔صفحہ ۔۱۱۲،شہریار،مرتب سرورالہدیٰ،اصیلا آفسیٹ پریس،دریا گنج، نئی دہلی، ۲۰۱۰؁ء
——
تحریر : فیض الرحمٰن ، شعبۂ اردو ، دہلی یونیورسٹی
——
منتخب کلام
——
شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے
——
یہ اک شجر کہ جس پہ نہ کانٹا نہ پھول ہے
سائے میں اس کے بیٹھ کے رونا فضول ہے
——
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
——
عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو
——
ایک ہی دھن ہے کہ اس رات کو ڈھلتا دیکھوں
اپنی ان آنکھوں سے سورج کو نکلتا دیکھوں
——
آنکھوں میں تری دیکھ رہا ہوں میں اپنی مشکل
یہ کوئی واہمہ ، یہ کوئی خواب تو نہیں
——
آنکھوں کو سب کی نیند بھی دی خواب بھی دیے
ہم کو شمار کرتی رہی دشمنوں میں رات
——
زخموں کو رفو کر لیں دل شاد کریں پھر سے
خوابوں کی کوئی دنیا آباد کریں پھر سے
——
ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں
اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں مری رسوا
س شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں
اک صرف ہمیں مے کو آنکھوں سے پلاتے ہیں
کہنے کو تو دنیا میں مے خانے ہزاروں ہیں
اس شمع فروزاں کو آندھی سے ڈراتے ہو
اس شمع فروزاں کے پروانے ہزاروں ہیں
——
دل چیز کیا ہے آپ مری جان لیجئے
بس ایک بار میرا کہا مان لیجئے
اس انجمن میں آپ کو آنا ہے بار بار
دیوار و در کو غور سے پہچان لیجئے
مانا کہ دوستوں کو نہیں دوستی کا پاس
لیکن یہ کیا کہ غیر کا احسان لیجئے
کہئے تو آسماں کو زمیں پر اتار لائیں
مشکل نہیں ہے کچھ بھی اگر ٹھان لیجئے
——
شدید پیاس تھی پھر بھی چھوا نہ پانی کو
میں دیکھتا رہا دریا تری روانی کو
سیاہ رات نے بے حال کر دیا مجھ کو
کہ طول دے نہیں پایا کسی کہانی کو
بجائے میرے کسی اور کا تقرر ہو
قبول جو کرے خوابوں کی پاسبانی کو
اماں کی جا مجھے اے شہر تو نے دی تو ہے
بھلا نہ پاؤں گا صحرا کی بیکرانی کو
جو چاہتا ہے کہ اقبال ہو سوا تیرا
تو سب میں بانٹ برابر سے شادمانی کو
——
نظر جو کوئی بھی تجھ سا حسیں نہیں آتا
کسی کو کیا مجھے خود بھی یقیں نہیں آتا
ترا خیال بھی تیری طرح ستم گر ہے
جہاں پہ چاہئے آنا وہیں نہیں آتا
جو ہونے والا ہے اب اس کی فکر کیا کیجے
جو ہو چکا ہے اسی پر یقیں نہیں آتا
یہ میرا دل ہے کہ منظر اجاڑ بستی کا
کھلے ہوئے ہیں سبھی در مکیں نہیں آتا
بچھڑنا ہے تو بچھڑ جا اسی دوراہے پر
کہ موڑ آگے سفر میں کہیں نہیں آتا
——
امید سے کم چشم خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے
سچ خود سے بھی یہ لوگ نہیں بولنے والے
اے اہل جنوں تم یہاں بے کار میں آئے
یہ آگ ہوس کی ہے جھلس دے گی اسے بھی
سورج سے کہو سایۂ دیوار میں آئے
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے تنہائی ہماری
کیا سوچ کے ہم وادئ انکار میں آئے
——
نظم : زوال کی حد
——
بوتل کے اندر کا جن
نکلے تو اس سے پوچھیں
جینے کا کیا ڈھنگ کریں
کن سپنوں سے جنگ کریں
کھولو سوڈا لاؤ گلاس
دو آنے کے سیخ کباب
سگریٹ بھی لیتے آنا
پارک میں کیا وہ آئی تھی
آج بھی کیا شرمائی تھی
کیسے کپڑے پہنے تھی
کیا انداز تھا جوڑے کا
تم نے اس سے پوچھا تھا
رات جو تم نے سوچا تھا
فیضؔ کی تازہ نظم پڑھی
اور بیدیؔ کا افسانہ
لوپ سے کیا حاصل ہوگا
دریا کیا ساحل ہوگا
بھوک سے جنتا مرتی ہے
پنجابی صوبے کے بعد
چین نئی دھمکی دے گا
اندرا جی کے بھاشن میں
پنڈت جی کی بات کہاں
شاستری اردو بولتے تھے
جن سنگھی کیوں سنتے تھے
آج کسی کی برسی تھی
ویسٹ انڈیز ہی جیتے گا
تھوڑا سوڈا اور ملاؤ
کدھر لوٹری ہے بتلاؤ
تم اتنے خاموش ہو کیوں
نظم کوئی کہہ ڈالی کیا
تو پھر کیا ہے ہو جائے
لیکن شرط ترنم ہے
پنکھے کی اسپیڈ بڑھاؤ
کٹھمنڈو نیپال میں ہے
سارتر کی بیوی کیسی ہے
ہم بندر کے پوتے ہیں
میرٹھ سے قینچی بھی لائے
لا یعنی ہیں مرگ و زیست
بے معنی ہیں سب الفاظ
بے حس ہے مخلوق خدا
ہر انساں اک سایہ ہے
شادی غم اک دھوکا ہے
دل آنکھیں لب ہاتھ دماغ
ایک وبا کی زد میں ہیں
اپنے زوال کی حد میں ہیں
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ