روشنی لفظ کی تا حدِ نہاں کھُلتی ہے

اُن کی مدحت جو پسِ حرف و بیاں کھُلتی ہے

ایک حیرت ہے جو ’’ اَوادنیٰ ‘​‘​ سے آگے ہے عیاں

اِک حقیقت ہے جو مابعدِ گماں کھُلتی ہے

ناز فرمائیں، چلے آئیں وہ جانِ عالم

خواہشِ دید کراں تا بہ کراں کھُلتی ہے

سوچتا ہُوں اُسے اظہار میں لاؤں کیسے

ایک صورت جو نہاں ہو کے عیاں کھُلتی ہے

آنکھ کا تذکرہ موقوف ہے شہرِ دل میں

خواب کے پردے پہ اِک دیدِ رواں کھُلتی ہے

آخری نعت کی مُہلت کی سفارش کر دیں

فردِ عصیاں مری اے شاہِ زماں کھُلتی ہے

جس کے ہر کوچے میں کھِلتے ہیں اِرَم کے منظر

تیری دہلیز سے وہ ارضِ جناں کھُلتی ہے

قابَ قوسین کی تلمیح پہ حیرت ساکت

ناوکِ شوق سے پہلے ہی کماں کھُلتی ہے

ایک تدبیر سے ممکن نہیں اظہارِ دروں

پُوری ہستی مری توصیف بہ جاں کھُلتی ہے

اگلے لمحے کو ہو مقصودؔ سوئے خیر رواں

تیری قسمت جو پئے شہرِ اماں کھُلتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]