اردوئے معلیٰ

عطر بیز چھاؤں میں، نُور کی رداؤں میں

نام میرا آئے گا نعت آشناؤں میں

 

دیکھنے کے لائق ہے سطوتِ غِنا اُن کی

شوکتِ شہی دیکھی آپ کے گداؤں میں

 

کیا عجب تفاخر ہے تیرا نعت گو ہونا

کیا عجب تسلی ہے روز کی ثناؤں میں

 

شوقِ خستہ خاطر میں آپ کی طلب خیزی

حُسن جا سنورتا ہے آپ کی اداؤں میں

 

زیست کی مسافت پر جیسے ٹوٹتا منظر

مَیں بھی ایسے شامل ہُوں تیرے نارساؤں میں

 

نعت تیری لکھتا ہُوں بہرِ خاطرِ رفتہ

نام تیرا لیتا ہُوں ساری ابتلاؤں میں

 

تُو نے بھی عطاؤں کو تا بہ حشر رکھا ہے

مَیں بھی نعت کہتا ہُوں اپنی سب دعاؤں میں

 

مطمئن کھڑا ہُوں مَیں ! سامنے مدینہ ہے

حُزن کیا اُٹھا لاتا ڈُوبتی خطاؤں میں

 

رفعتوں کا والی تُو، شوکتوں کا وارث تُو

نام تیرا رخشاں ہے ساری انتہاؤں میں

 

لائی ہے صبا مژدہ پھر مرے بُلاوے کا

کپکپی سی طاری ہے شہر کی ہواؤں میں

 

کاش مَیں بھی ہو جاؤں صرف ایک لمحے کو

جیسے نعل ہوتے تھے نُور نُور پاؤں میں

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ