رُک ہی جاتی کہیں ہَوا، لیکن!

رُک ہی جاتی کہیں ہَوا، لیکن

وہ کہیں بھی نہیں رُکا، لیکن

جب کوئی درد سانس لیتا ہے

مسکراتا ہوں بارہا، لیکن

میری آنکھیں نہ دشت ہو جائیں

تُو مجھے شوق سے رُلا، لیکن

کب تلک یوں فریب کھائیں گے؟

اُس کا چہرہ ہے دلربا، لیکن

زینؔ اُس کو، وفا شناسی پر

شوق سے آئینہ دکھا، لیکن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]