رہتے ہیں تصور میں وہ دن رات مسلسل
ملتی ہے مدینے سے یہ خیرات مسلسل
آفاق میں ہوتا ہے درودوں کا وظیفہ
جاتی ہے غلاموں کی یہ سوغات مسلسل
ہر لحظہ رہے وردِ زباں اسمِ محمد
رہتے ہیں تلاطم میں یہ جذبات مسلسل
رہتا ہوں تخیّل میں شب و روز مدینہ
ملتے ہیں مجھے قرب کے لمحات مسلسل
الفقر کو ” فخری” جو کہا شاہ نے ‘ دیکھو
رہتی ہیں فقیروں پہ عنایات مسلسل
ہے آپ کی سنت سے بغاوت کا نتیجہ
گھیرے ہوئے اُمت کو ہیں خطرات مسلسل
دیکھا ہے سدا ہم نے درِ پاک پہ جا کر
اللہ کی رحمت کی ہے برسات مسلسل