اردوئے معلیٰ

رہی عمر بھر جو انیسِ جاں وہ بس آرزوئے نبی رہی

کبھی اشک بن کے رواں ہوئی ، کبھی درد بن کے دبی رہی

 

شہ دیں کے فکر و نگاہ سے مٹے نسل و رنگ کے فلسفے

نہ رہا تفاخرِ منصبی ، نہ رعونتِ نسبی رہی

 

سرِ دشتِ زیست برس گیا ، جو سحابِ رحمتِ مصطفے

نہ خرد کی بے ثمری رہی ، نہ جنوں کی جامہ دری رہی

 

تھی ہزار تیرگی فتن ، نہ بھٹک سکا مرا فکر و فن

مری کائناتِ خیال میں نظرِ شہِ عربی رہی

 

وہ صفا کا مہرِ منیر ہے ، طلب اس کی نورِ ضمیر ہے

یہی روزگارِ فقیر ہے ، یہی التجائے شبی رہی

 

وہی ساعتیں تھیں سرور کی ، وہی دن تھے حاصل زندگی

بحضور شافع ِامتاں مری جن دنوں طلبی رہی

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات