زباں پر ہے‘ دلوں میں ہے‘ مکاں سے لامکاں تک ہے

زباں پر ہے، دلوں میں ہے، مکاں سے لامکاں تک ہے

اُنہی کے نام کا چرچا زمیں سے آسماں تک ہے

کرم کا اُن کے جاری سلسلہ بابِ جناں تک ہے

غلاموں کا یہ سرمایہ یہاں سے ہے وہاں تک ہے

حرم سے مسجدِ اقصیٰ وہاں سے تا بہ اَو اَدنیٰ

ظہورِ شانِ محبوبی کہاں سے ہے کہاں تک ہے

مقامِ مصطفیٰ سدرہ پہ ظاہر ہوگیا جس دم

کہا جبریل نے میری رسائی بس یہاں تک ہے

رضا آقا کی مل جائے تو راضی رب بھی ہو جائے

غلاموں کی پہنچ آقا تمہارے آستاں تک ہے

علاجِ اضطرابِ آدمیت کیوں نہ ہو اِس جا

نظر سرکار کی اسرارِ رازِ کُن فَکاں تک ہے

وہی جلوہ نما ہوں جس طرف دیکھوں جہاں دیکھوں

مری حدِ تخیل جس قدر بھی ہے جہاں تک ہے

مری نعتوں میں بستی ہے نسیمِ گلشنِ طیبہ

خوشا قسمت کہ یہ خوشبو مرے اِس گلستاں تک ہے

بیاں کرنے لگا ہوں مدحتِ سرکار میں عارفؔ

عجب اک کیف طاری قلب سے نوکِ زباں تک ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]