زمزمہ سنج ہے بلبل، کہیں کُوکی کوئل

نعت گوئی کی مرے دل میں مچی اک ہلچل

شعر گوئی کی مجھے تھوڑی بہت ہے اٹکل

فرض مجھ پر بھی ہوئی نعتِ نبی افضل

رحمتِ حق کے خوشا جھوم کے برسے بادل

جلوہ افروز ہوا تب وہ نبی مرسل

کتنا خوش بخت ہے یہ ماہِ ربیع الاول

اس میں چمکا مہِ بطحا بہ جمالِ اکمل

ضربِ "​اللہ احد”​ نے وہ مچائی ہلچل

گر پڑے لات و منات اور ہبل منہ کے بل

ہم تھے حیرت زدۂ حسن و جمالِ یوسف

ہم نے دیکھی نہ تھی جب تک تری نوریں ہیکل

ان کا ہر ایک عمل ہم کو نمونہ ٹھہرا

ان کا ہر قول ہے اللہ رے قولِ فیصل

ان کے کوچہ میں پہنچتے ہیں گدا کی صورت

اپنے گھر کے ہی بڑے ہوں گے یہ سنجر طغرل

شہِ کونین کی ہم کو ہے شریعت کافی

فلسفہ پاس رکھیں اپنے یہ حضرت ہیگل

تھی یہ تقدیرِ الٰہی یہ خدا کی حکمت

آئے آخر میں نبی وہ کہ ہیں سب میں اول

آپ کے بعد جو اجرائے نبوت مانگیں

دانش و عقل سے عاری کوئی ہوں گے پاگل

کیا ضرورت کہ نظرؔ چاروں طرف دوڑائیں

آپ کا دین مکمل ہے شریعت اکمل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]