زمیں پہ گرتے فلک کو سنبھالتا ہوا میں
اندھیرے پھانکتا ، سورج ابھارتا ہوا میں
چمک رہا ہوں ابھی کوزہ گر کی آنکھوں میں
کسی وجود کا نقشہ ابھارتا ہوا میں
نظر میں آئینہ در آئینہ ہے خواب کوئی
بکھرتا جاتا ہوں تجھ کو پکارتا ہوا میں
نکل کے شہرسے پایاہے حوصلہ میں نے
سو آگیا سر صحرا،کراہتا ہوا میں
میں اپنی موت کی جانب رواں دواں ہوں اب
خود اپنے سینے سے مدفن نکالتا ہوا میں