زنانِ مصر

حسیں ہاتھوں سے خنجر نے انوکھا کھیل کھیلا ہے
رگوں سے خون جاری ہے
مگر آنکھوں میں ایسی بے کلی کروٹ بدلتی ہے
کہ جیسے انگلیاں کٹنا تو اک معمول ٹھہرا ہو
مگر معمول سے ہٹ کر وہ حسنِ بے مثل کیا تھا؟
فقط اک مختصر لمحہ؟
بھلا پلکیں جھپکنے میں وہ جیتا جاگتا منظر اچانک خواب ہوتا ہے؟
زنانِ مصر حیراں ہیں
کہ جس حسنِ مکمل کے خراجِ دید میں ان کا لہو قربان ہوتا ہے
وہ اتنا اجنبی ہے کہ فقط اک ساعتِ دیدار کا رشتہ نکلتا ہے
زنانِ مصر حیراں ہیں
کہ اک ساعت کی قیمت خون میں دے کر بھی
وہ اس بے مثل ، یکتاء، حسیں انساں کی قبت کا
کوئی لمحہ نہ جیتیں گی؟
وہ اپنے خون میں جتنی بھی چاہے چاہتیں گھولیں
انہیں معلوم ہے آخر زلیخا جیت جائے گی
زنانِ مصر کہتی ہیں
کہ جس دامن کے چھونے کو ہمارے ہاتھ نے اپنا لہو
تحفہ بنایا ہے
وہی دامن زلیخا کے بہت گستاخ ہاتھوں سے
دریدہ دھجیاں ہوگا
زلیخا صبر سے عاری ، محبت کے تقاضوں سے
کبھی واقف نہیں ہوگی
اسے معلوم ہی کب ہے کہ ایسے حسن کا صدقہ
لہو دے کر ادا کیا جاتا ہے اور آنکھیں
خراجِ دید میں اپنی نظر قربان کرتی ہیں
زنانِ مصر حیراں ہیں
کہ جس حسنِ مکمل کی صداقت کے لئے
کاتب نے ان کا نام لکھا تھا
وہی کاتب دلوں کے حال بھی تو جان لیتا ہے
زنانِ مصر کہتی ہیں
صداقت ہو گئی لیکن
ہماری زندگی میں جو خلا چھوڑا گیا ہے وہ مکمل ہو نہیں سکتا
بھلا ایسے حسیں انسان کے آگے نگاہوں میں کوئی انسان جچتا ہے؟
وہ کہتی ہیں
خدائے بحر و بر
ہم نے ترا لکھا تو پورا کر دکھایا ہے
مگر ہم کو تری تخلیق پر اپنی گواہی کے توسط سے
تری سرکار سے اک اور لمحہ تو عنایت ہو
کوئی خوشبو نما رشتہ اسی حسنِ معطر سے
کوئی چھینا گیا لمحہ زلیخا کے مقدر سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]