زندگانی تو اگر یوں ہو بسر کیا کیجئے

دل ہی جب پتھر ہوئے تو دل میں گھر کیا کیجئے

ایک آشوبِ سماعت میں ہے دنیا مبتلاء

کوں سامع ہے یہاں عرضِ ہنر کیا کیجئے

چوٹیاں کہسار کی ہوں یا کہ پھر گوندھی ہوئی

چوٹیاں پامال ہو جاتی ہیں سر کیا کیجئے

راہ پر رہیئے تو رہیئے کون سی امید پر

اب کہیں جاتی نہیں ہے رہگذر کیا کیجئے

ہیں بہت رفتار میں ہم اور اس رفتار سے

ایک اک کر کے جھڑے جاتے ہیں پر کیا کیجئے

وہ قیامت خیز لہجہ ہے بوقتِ مرگ بھی

بیٹھ کر سر دھن رہے ہیں چارہ گر کیا کیجئے

راندہِ افلاک ٹھہرے ، خواہشِ پرواز پر

پاوں اب اگنے لگے ہیں خاک پر کیا کیجئے

رن بہت گھمسان کا ہے اور ہم ہیں سوچ میں

کون سی جانب تھے ہم ائے خیر و شر کیا کیجئے

زخم ہو کہ آنکھ ہو کہ دل ہو یا کہ ظرف ہو

آخرش اک روز تو جانا ہے بھر کیا کیجئے

منقطع ہو جائے نہ سانسوں کا ناصر رابطہ

مرحلہ مقطع کا ہو درپیش گر کیا کیجئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]