اردوئے معلیٰ

Search

آج ممتاز شاعر، فلم ساز اور ہدایت کار جناب سرور بارہ بنکوی کا یومِ پیدائش ہے۔

 

سرور بارہ بنکوی(پیدائش: 30 جنوری، 1919ء – وفات: 3 اپریل، 1980ء)
——
سرور بارہ بنکوی (انگریزی: Suroor Barabankvi) ‏ پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر، فلم ساز اور ہدایت کار تھے۔ انہوں نے مشہور پاکستانی فلم آخری اسٹیشن بنائی اور تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے، ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے، کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں جیسے لازوال گیت تخلیق کیے۔
سرور بارہ بنکوی 30 جنوری، 1919ء کو بارہ بنکی، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نا م سید سعید الرحمٰن تھا۔
مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) سے سُرور بارہ بنکوی کی محبت کا آغاز 1951ء میں شروع ہوا جب انہیں ڈھاکہ میں یوم آزادی کے مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ وہ بنگالی عوام کی پزیرائی سے بہت متاثر ہوئے۔ 1952ء میں وہ دوبارہ ڈھاکہ آئے اور پھر وہیں آباد ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ انہیں انجمن ترقی اردو کے دفتر میں نوکری مل گئی۔ مشرقی پاکستان میں انہیں ترقی پسند شاعر کہا جاتا تھا۔ سُرور بارہ بنکوی ایک عمدہ غزل گو بھی تھے۔ سُرور بارہ بنکوی صرف فلمی نغمہ نگار ہی نہیں۔ غزل اور نظم کے بھی باکمال شاعر تھے۔ ان کے شعری مجموعے سوز گیتی اور سنگ ِآفتاب کی نام سے شائع ہوا۔
انہوں نے تین فلمیں بھی بنائیں جن میںآخری اسٹیشن سب سے مشہور ہوئی۔ یہ فلم انہوں نے ہاجرہ مسرور کے افسانے پگلی سے متاثر ہو کر بنائی تھی۔ یہ اداکارہ شبنم کی پہلی فلم تھی جس میں شبنم نے ایک گونگی لڑکی کا کردار ادا کیا اور چونکا دینے والی اداکاری کی۔ آخری اسٹیشن کو متحدہ پاکستان کی بہترین آرٹ فلم بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ کرشن چندر کے افسانے انجان پر بھی انہوں نے فلم بنائی جس کا نام تھا تم میرے ہو، اس فلم نے بھی شائقین کو بے حد متاثر کیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد سُرور بارہ بنکوی پاکستان منتقل ہو گئے۔ وہ پاکستان کے دو لخت ہونے پر بہت دکھی اور غمزدہ تھے۔ یہاں آ کر بھی انہوں نے بہت خوبصورت شاعری کی لیکن ادبی حلقوں کی رائے میں اب ان کی شاعری میں وہ توانائی اور حرارت باقی نہ رہی تھی جو مشرقی پاکستان میں تھی۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر خمار بارہ بنکوی کا یوم وفات
——
سرور بارہ بنکوی نے یادگار فلمی نغمات لکھے۔ 1962ء میں جب احتشام نے اپنی پہلی اردو فلم چندا بنائی تو اس کی کہانی اور نغمات سُرورصاحب نے لکھے۔ بنگال کی کوئل فردوسی بیگم نے بھی اس فلم کے کچھ گیت گائے۔ 1963ء میں ریلیز ہونے والی فلم تلاش میں ان کے گیت بہت ہِٹ ہوئے،یہ گیت بشیر احمد نے گائے تھے۔ اس فلم کے نغمات کچھ اپنی کہیے ،کچھ میری سنیے بہت مقبول ہوا۔ پھر بشیر احمد کا گایا ہوا یہ نغمہ میں رکشہ والا بیچارا ہر کسی کے لبوں پر تھا۔ اس کے بعد کاجل میں اُن کے لکھے ہوئے نغمات نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ خاص طور پر فردوسی بیگم کا گایا ہوا یہ گانا یہ آرزو جواں جواں،یہ چاندنی دھواں دھواں انتہائی پسند کیا گیا۔ اداکار رحمن کی ذاتی فلم ملن میں بھی سُرور صاحب کا لکھا ہوا یہ گانا تم سلامت رہو، مسکراؤ ہنسو بہت ہٹ ہوا۔ 1968ء میں انہوں نے چاند اورچاندنی کے نغمات لکھے۔ کریم شہاب الدین کی دلکش موسیقی نے اِن گیتوں کو لازوال شہرت سے ہمکنار کر دیا۔ مالا، احمد رشدی اور مسعود رانا نے بھی انتہائی خوبصورت گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ چاند اور چاندنی کے نغمات آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے نغمات میں جانِ تمنا خط ہے تمہارا پیار بھرا افسانہ ( احمد رُشدی)، لائی گھٹا موتیوں کا خزانہ (مالا)، اے جہاں اب ہے منزل کہاں (احمد رشدی) تیری یاد آ گئی، غم خوشی میں ڈھل گئے (مسعود رانا) سب سے زیادہ مشہور ہوئے۔
پاکستان میں انہوں نے جن فلموں کے لیے جو عدیم النظر گیت لکھے ان میں احساس، آئینہ اور نہیں ابھی نہیں شامل ہیں۔ ان کے 90 فیصد نغمات کو روبن گھوش نے اپنی مسحور کن موسیقی سے مزین کیا۔ فلم احساس کا گیت ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے رونا لیلیٰ کا گایا ہوا یہ نغمہ تو گویا سُرور بارہ بنکوی کو امر کرگیا۔ اسی طرح 1977ء میں ریلیز ہونے والی یادگار فلم آئینہ میں بھی اُن کے لکھے ہوئے نغمات نے حشربپا کر دیا۔ یوں تو ہر گیت ہی زبردست تھا لیکن مہدی حسن کا گایا ہوا یہ گیت کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ اِسی گانے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مہدی حسن کی فلمی گائیکی کا دوسرا جنم تھا۔ ہالی وڈ کی مشہور فلم سمر آف 42 سے متاثر ہو کر یہاں بھی ایک فلم بنائی گئی جس کا نام تھا نہیں ابھی نہیں، فلم آئینہ کے بعد ہدایتکار نذرالسلام کی یہ فلم بھی انتہائی اعلیٰ درجے کی تھی۔ اس کی موسیقی بھی روبن گھوش کی تھی۔ سُرور بنکوی کے گیت کو اِس بار اخلاق احمد نے بلندیوں پر پہنچایا۔ خاص طور پر اس گیت سماں وہ خواب سا سماں نے سُرور بارہ بنکوی، اخلاق احمد اور روبن گھوش کو شہرت اور عظمت کی ایک نئی منزل پر پہنچا دیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف فلمی شاعر مسرور انور کا یومِ پیدائش
——
مشہور فلمیں
——
بطور فلم ساز و ہدایت کار
آخری اسٹیشن
تم میرے ہو
آشنا
بطور نغمہ نگار
چندا
تلاش
ناچ گھر
کاجل
بہانہ
ملن* نواب سراج الدولہ
تم میرے ہو
آخری اسٹیشن
چاند اور چاندنی
احساس
سونے ندیا جاگے پانی
——
مشہور نغمات
——
جانِ تمنا خط ہے تمہارا پیار بھرا افسانہ
تیری یاد آ گئی، غم خوشی میں ڈھل گئے
ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے
کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں
یہ آرزو جواں جواں،یہ چاندنی دھواں دھواں
سماں وہ خواب سا سماں
کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں
ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے
——
تصانیف
——
1975ء – سنگ ِآفتاب (شاعری)
1980ء – سوز گیتی (شاعری)
——
وفات
——
سرور بارہ بنکوی اپنی زندگی کے آخری دور میں وہ سقوطِ ڈھاکہ اور جنگی قیدیوں پر فلم بنانا چاہتے تھے۔ اس فلم کا سکرپٹ مکمل ہو چکا تھا جس کا نام انہوں نے کیمپ نمبر333 رکھا تھا۔ وہ اِس فلم کی شوٹنگ کے انتظامات کو آخری شکل دینے کے لیے ڈھاکہ گئے جہاں وہ دل کا دورہ پڑنے سے 3 اپریل، 1980ء کو ڈھاکا میں وفات پاگئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر اور فلمی نغمہ نگار قمر جلال آبادی کا یوم وفات
——
سرور بارہ بنکوی کا جسد خاکی کراچی لایا گیا جہاں وہ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
——
منتخب کلام
——
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
——
ہم لوگ نہ الجھے ہیں نہ الجھیں گے کسی سے
ہم کو تو ہمارا ہی گریبان بہت ہے
——
تو کیا یہ طے ہے، کہ اب عمر بھرنہیں ملنا
تو پھر یہ عمربھی کیوں، تم سے گرنہیں ملنا
یہ کون چُپکے سے تنہائیوں میں کہتا ہے
تِرے بغیر سُکوں عُمْر بھر نہیں ملنا
چلو زمانے کی خاطر یہ جبْر بھی سہہ لیں
کہ اب مِلے تو کبھی ٹوٹ کر نہیں ملنا
رہِ وفا کے مُسافر کو کون سمجھائے
کہ اِس سفر میں کوئی ہمسفرنہیں ملنا
جُدا تو جب بھی ہوئے دِل کو یوں لگا جیسے
کہ اب گئے تو کبھی لوٹ کر نہیں ملنا
——
اور کوئی دَم کی ہے مہماں گزر جائے گی رات
ڈھلتے ڈھلتے آپ اپنی موت مرجائے گی رات
زندگی میں اور بھی کچھ زہر بھرجائے گی رات
اب اگر ٹھہری، رگ و پے میں اترجائے گی رات
ہے اُفق سے ایک سنگِ آفتاب آنے کی دیر
ٹوٹ کر مانندِ آئینہ بکھر جائے گی رات
ہم تو جانے کب سے ہیں آوارۂِ ظُلمت مگر
تم ٹھہرجاؤ تو پل بھر میں گزر جائے گی رات
رات کا انجام بھی معلُوم ہے مُجھ کو سُرُور
لاکھ اپنی حد سے گزرے تاسحر، جائے گی رات
——
نہ کسی کو فکر منزل نہ کہیں سراغ جادہ
یہ عجیب کارواں ہے جو رواں ہے بے ارادہ
یہی لوگ ہیں ازل سے جو فریب دے رہے ہیں
کبھی ڈال کر نقابیں کبھی اوڑھ کر لبادہ
میرے روز و شب یہی ہیں کہ مجھی تک آ رہی ہیں
تیرے حسن کی ضیائیں کبھی کم کبھی زیادہ
سر انجمن تغافل کا صلہ بھی دے گئی ہے
وہ نگہ جو درحقیقت تھی نگاہ سے زیادہ
ہو براۓ شام ہجراں لب ناز سے فروزاں
کوئی ایک شمع پیماں کوئی اک چراغ وعدہ
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر اور فلمی نغمہ نگار خمار بارہ بنکوی کا یوم پیدائش
——
اے جنوں کچھ تو کھلے آخر میں کس منزل میں ہوں
ہوں جوار یار میں یا کوچہء قاتل میں ہوں
پا بہ جولاں اپنے شانوں پر لیے اپنی صلیب
میں سفیر حق ہوں لیکن نرغہء باطل میں ہوں
چشن فردا کے تصور سے لہو گردش میں ہے
حال میں ہوں اور زندہ اپنے مستقبل میں ہوں
دم بخود ہوں اب سر مقتل یہ منظر دیکھ کر
میں کہ خود مقتول ہوں لیکن صف قاتل میں ہوں
اک زمانہ ہو گیا بچھڑے ہوۓ جس سر سرورؔ
آج اسی کے سامنے ہوں اور بھری محفل میں ہوں
——
یہی نہیں کہ مرا دل ہی میرے بس میں نہ تھا
جو تو ملا تو میں خود اپنی دسترس میں نہ تھا
بہ نام عہد رفاقت بھی ہم قدم نہ ہوا
یہ حوصلہ مرے معصوم ہم نفس میں نہ تھا
عجیب سحر کا عالم تھا اس کی قربت میں
وہ میرے پاس تھا اور میری دسترس میں نہ تھا
نہ جانے قافلۂ اہل دل پہ کیا گزری
یہ اضطراب کبھی نالۂ جرس میں نہ تھا
خبر تو ہوگی تجھے تیرے جاں نثاروں میں
کوئی تو تھا سر مقتل جو پیش و پس میں نہ تھا
سرورؔ اپنے چمن کی فضا ہے کیا کہئے
سکوت کا تو وہ عالم ہے جو قفس میں نہ تھا
——
نظم : ہم تو شاعر ہیں ہم سچ نہیں بولتے
——
ہم تو شاعر ہیں ہم سچ نہیں بولتے
جان جاں سچ پہ کیوں اتنا اصرار ہے
سچ کی عظمت سے کب ہم کو انکار ہے
ہم بھی شاعر ہیں آخر اسی قوم کے
جس کا ہر فرد بکنے پہ تیار ہے
ہم ہیں لفظوں کے تاجر یہ بازار ہے
سچ تو یہ ہے گزرتے ہوئے وقت سے
فائدہ جو اٹھا لے وہ فن کار ہے
ہم نہ سقراط ہیں ہم نہ منصور ہیں
ہم سے سچ کی توقع ہی بیکار ہے
تیز تلوار سی وقت کی دھار ہے
اس لیے جان جاں اپنی تحریر سے
خوف تعزیر سے
سچے موتی کبھی ہم نہیں رولتے
ہم تو شاعر ہیں ہم سچ نہیں بولتے
فصل آتی ہے جب حفظ پندار کی
سچ کے اظہار کی
ہم حقائق سے نظریں چرائے ہوئے
مصلحت کے جنازے اٹھائے ہوئے
سر جھکائے ہوئے
لوٹ جاتے ہیں ماضی کے صحراؤں میں
بیٹھ کر پھر غم ذات کی چھاؤں میں
سوچتے بھی نہیں بولتے بھی نہیں
سہمے سہمے ہوئے لوگ ملتے ہوں جب
ہر طرف زخم کے پھول کھلتے ہوں جب
جان جاں کم سے کم ایسے موسم میں ہم
حرف حق تو کجا لب نہیں کھولتے
ہم تو شاعر ہیں ہم سچ نہیں بولتے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ