اردوئے معلیٰ

زندگی دشتِ انا ہے یہاں کس کا سایا

اپنے سائے کے علاوہ نہیں ملتا سایا

 

دور جائیں جوشجرسے تو جھلس جانے کا ڈر

چھاؤں میں بیٹھیں تو اپنا نہیں بنتا سایا

 

بڑھ گئی میری تھکن اور بھی اے شہر امان

آزما کر تری دیوار کا دیکھا سایا

 

عکس شیشے کے گھروں میں نظر آتے ہیں ہزار

دھوپ آ جائے تو ڈھونڈے نہیں ملتا سایا

 

اُس کے آنچل کی دھنک کو تو ذرا کھُلنے دو

جلتا سورج بھی پکارے گا کہ سایا سایا

 

ایک دیوارِ عداوت تھی کہ گرتے گرتے

شہر میں چھوڑ گئی خوف کا گہرا سایا

 

جب بھی کاندھے پہ اٹھاتا ہوں میں بچوں کو ظہیر

میری قامت سے بھی بڑھ جاتا ہے میرا سایا

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔