زیادہ پاس مت آنا

زیادہ پاس مت آنا
زیادہ پاس مت آنا
مَیں وہ تہہ خانہ ھُوں جس میں
شکستہ خواھشوں کے ان گنت آسیب بستے ھیں
جو آدھی شب تو روتے ھیں، پھر آدھی رات ھنستے ھیں
مری تاریکیوں میں
گُمشدہ صدیوں کے گرد آلُود، ناآسُودہ خوابوں کے
کئی عفریت بستے ھیں
مری خوشیوں پہ روتے ھیں، مرے اشکوں پہ ھنستے ھیں
مرے ویران دل میں رینگتی ھیں مکڑیاں غم کی
تمناؤں کے کالے ناگ شب بھر سرسراتے ھیں
گناھوں کے جَنے بچُھو
دُموں پر اپنے اپنے ڈنک لادے
اپنے اپنے زھر کے شعلوں میں جلتے ھیں
یہ بچھو دُکھ نگلتے اور پچھتاوے اُگلتے ھیں

زیادہ پاس مت آنا
مَیں وہ تہہ خانہ ھوں جس میں
کوئی روزن، کوئی کھڑکی نہیں باقی
فقط قبریں ھی قبریں ھیں
کہیں ایسا نہ ھو تُم بھی انہی قبروں میں کھو جاؤ
انہی میں دفن ھو جاؤ
گُلابی ھو، کہیں ایسا نہ ھو تُم زرد ھو جاؤ
محبت کی حرارت کھو کے بالکل سرد ھو جاؤ
سراپا درد ھو جاؤ
سو میرے سادہ و معصُوم ! مُجھ کو راس مت آنا
زیادہ پاس مت آنا
زیادہ پاس مت آنا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]