سخن کے پیڑ پہ مدحت کا نور آیا ہے

حرائے دل میں خیالِ حضور آیا ہے

مزاجِ حضرتِ حسان بھا گیا اس کو

قلم کی جیب میں جب سے شعور آیا ہے

ہمارے گھر کے ازل سے بجھے چراغوں میں

حضورِ والا کے آنے سے نور آیا ہے

سکون چاہیے تھا دل کو اور نظر کو چین

بس ایک نعت کہی تو سرور آیا ہے

نبی کا عشق پلایا تھا ماں نے گھٹی میں

خیال پڑھتا ازل سے زبور آیا ہے

جگر پہ زخم سجائے ہوئے ترے در پر

مریضِ ہجر شکستوں سے چور آیا ہے

اسے بھی تھوڑی سی قدموں میں اب جگہ دیجے

یہ کر کے درد کا دریا عبور آیا ہے

خدائے عزق اسے عاجزی کی دولت دے

سرِ خیال میں میرے غرور آیا ہے

قدم قدم پہ مدینے کی خاک پرمظہرؔ

ہمارے زیرِ قدم کوہ و طور آیا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]