سرزمینِ باولی فیضان ہی فیضان ہے

میرے خواجہ خانِ عالمؒ کا نگر ذیشان ہے

مرکزِ انوار بحرِ عشق طورِ سالکاں

یہ درِ دولت تصوف آگہی عرفان ہے

بارگاہِ مصطفی بس اک حوالہ آپ کا

بیعتِ ـعشقِ نبی ہی آپ کا عنوان ہے

نقشبندی فیض کے ابرِ کرم اتنا برس

دل کی کھیتی لہلہا اُٹھے بہت ویران ہے

پست فہموں اور طلب گارانِ دنیا کو حضور

نسبتِ دربار دینا آپ کا احسان ہے

’’یہ رہے نازاں مری نسبت پہ مولا بخش دے ‘‘

آپ کہہ دیں روزِ محشر بس یہی ارمان ہے

کوئی کیا اندازہ کر سکتا ہے تیرے اوج کا

تیرے درویشوں پہ بھی چشمِ فلک حیران ہے

اے فنائے عشقِ آقا اے بقا کے راہبر

جو ترے قدموں میں آجائے وہی سلطان ہے

استقامت ہو درود و ذکر اور اخلاص میں

خادمینِ باولی کو بس یہی فرمان ہے

اِس شکیلِؔ نقشبندی پر عطائے خاص ہو

سائلِ در ہے تمہارا یہ بھی اِک درباں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]