سرمایہ جاں ہیں شہِ ابرار کی باتیں

کس درجہ سکوں دیتی ہیں سرکار کی باتیں

کرتے ہیں کرم سب پہ کہ عادت ہے یہ ان کی

سنتے ہیں وفا دار وخطا کار کی باتیں

ہاں! کیسے ہیں وہ کوچہ و بازار وگلیاں

کچھ اور کرو شہرِ پُر انوار کی باتیں

ہاں! کیسے برستا ہے وہاں نور کا بادل

کچھ اور کرو گنبدِ ضوبار کی باتیں

ہاں! کیسے غبارِ دل وجاں دُھلتا ہے زائر

کچھ اور کرو ابر گُہر بار کی باتیں

ہاں! کیسے وہاں چلتی ہیں تھم تھم کے ہوائیں

کچھ اور مچلتی ہوئی مہکار کی باتیں

جی چاہے کہ ہر آن سنوں ذکرِ پیمبر

ہوتی رہیں کونین کے سردار کی باتیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]