سمایا ہے دل میں دیارِ مدینہ
اترتا نہیں اب خمارِ مدینہ
رواں ہے مری سانس کی ناؤ جب تک
کیے جاؤں گا انتظارِ مدینہ
بصارت کو ملتا ہے نورِ بصیرت
نگاہوں میں بھر لو غبارِ مدینہ
سفینے کے نزدیک آئے بھنور کیوں
نظر میں ہے میرے دیارِ مدینہ
چراغِ سخن جگمگانے لگے ہیں
تصور میں ہے ریگ زارِ مدینہ
ہر اک گلستاں ہے خزاؤں کی زد میں
مگر جاوداں ہے بہارِ مدینہ
خدا سے ہماری سفارش کریں گے
قیامت کے دن تاجدارِ مدینہ
عقیدت سے دیکھو نگاہوں کو میری
یہ لایا ہوں میں یاد گارِ مدینہ
بہشتِ بریں ہیچ لگتی ہے مظہرؔ
نظہر میں ہے جب سے نگارِ مدینہ