سمندروں کے درمیان سو گئے

تھکے ہوئے جہاز ران سو گئے

دریچہ ایک ہولے ہولے کھل گیا

جب اُس گلی کے سب مکان سو گئے

سلگتی دوپہر میں سب دکان دار

کُھلی ہی چھوڑ کر دکان سو گئے

پھر آج اک ستارہ جاگتا رہا

پھر آج سات آسمان سو گئے

ہوا چلی کُھلے سمندروں کے بیچ

تھکن سے چور بادبان سو گئے

سحر ہوئی تو ریگ زار جاگ اٹھا

مگر تمام ساربان سو گئے

اُس کی آنکھ کی پناہ اب نہیں نصیب

پلک پلک وہ سائبان سو گئے

جمال آخر ایسی عادتیں بھی کیا

کہ گھر میں شام ہی سے آن سو گئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]