سمندروں کے درمیان سو گئے
تھکے ہوئے جہاز ران سو گئے
دریچہ ایک ہولے ہولے کھل گیا
جب اُس گلی کے سب مکان سو گئے
سلگتی دوپہر میں سب دکان دار
کُھلی ہی چھوڑ کر دکان سو گئے
پھر آج اک ستارہ جاگتا رہا
پھر آج سات آسمان سو گئے
ہوا چلی کُھلے سمندروں کے بیچ
تھکن سے چور بادبان سو گئے
سحر ہوئی تو ریگ زار جاگ اٹھا
مگر تمام ساربان سو گئے
اُس کی آنکھ کی پناہ اب نہیں نصیب
پلک پلک وہ سائبان سو گئے
جمال آخر ایسی عادتیں بھی کیا
کہ گھر میں شام ہی سے آن سو گئے