سونپ دی جائے گی اب خاک کو ہر اک خواہش

پھر گلے لگ کے دفینے سے رہا جائے گا

چاک ہوگا تو سلیقے سے گریبان کہ اب

دشتِ وحشت میں قرینے سے رہا جائے گا

میں تہہِ آب سے اس طور پکاروں جیسے

اب نہیں تیرے سفینے سے رہا جائے گا

شہرِ جاناں مجھے رستوں کے حوالے کر دے

اور رہتا ہوں تو جینے سے رہا جائے گا

کیا خبر تھی کہ یہ ہیئت بھی گوارا ہوگی

چاکِ دامان کو سینے سے رہا جائے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]