سونپ دی جائے گی اب خاک کو ہر اک خواہش
پھر گلے لگ کے دفینے سے رہا جائے گا
چاک ہوگا تو سلیقے سے گریبان کہ اب
دشتِ وحشت میں قرینے سے رہا جائے گا
میں تہہِ آب سے اس طور پکاروں جیسے
اب نہیں تیرے سفینے سے رہا جائے گا
شہرِ جاناں مجھے رستوں کے حوالے کر دے
اور رہتا ہوں تو جینے سے رہا جائے گا
کیا خبر تھی کہ یہ ہیئت بھی گوارا ہوگی
چاکِ دامان کو سینے سے رہا جائے گا